سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی لارجر بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کیس کی سماعت کی جس میں حکومتی وکیل فروغ نسیم نے کفالت، پبلک ٹرسٹ اور ججز کی معاشرے میں حیثیت پر دلائل دیے۔
دورانِ سماعت جسٹس عمر عطا نے ریمارکس دیے کہ ہم ججز کے احتساب سے متفق ہیں، درخواستگزار نے بدنیتی اور غیرقانونی طریقے سے شواہد اکٹھےکرنےکا الزام لگایا ہے، ریفرنس میں قانونی نقائص موجود ہیں اور عمومی مقدمات میں ایسی غلطی پرکیس خارج ہوجاتا ہے لہٰذا ریفرنس میں بدنیتی ثابت ہوئی تو کیس خارج ہوسکتا ہے۔
بینچ کے سربراہ نے کہا کہ ابھی تک ریفرنس میں کئی خامیاں موجود ہیں، لندن کی جائیدادوں کی ملکیت تسلیم شدہ ہے، مقدمے میں سوال جائیداد کی خریداری کا ہے اور درخواستگزار نے جائیدادوں کے وسائل خریداری بتانے سے بھی انکار نہیں کیا، درخواستگزار چاہتا ہے کہ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
جسٹس عمر عطا کا کہنا تھا کہ ایف بی آر نے 116 اور 114 کے تحت نوٹس جاری کیے، معاملہ جوڈیشل کونسل کے پاس بھی چلا جائے، اگربدنیتی نہیں ہے توکونسل کارروائی کرسکتی ہے، آج بدنیتی اور شواہد اکٹھےکرنے پر دلائل دیں