تازہ ترین

پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ

Pakistan main dehshat gardi k waqiat main izafa
  • محمد قیصر چوہان
  • جولائی 31, 2023
  • 8:24 شام

افغانستان میں طالبان حکومت آنے اور اس کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات حکومت کے لیے تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔

پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی لہر سے علاقائی امن کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں ۔بلوچستان اور خیبر پختونخوا ہ دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی پناہ گاہیں ہیں۔ انہیںکارروائی کی آزادی ملنا، دہشت گردوں کے پاس جدید ترین ہتھیاروں کی دستیابی پاکستان کی سلامتی متاثر کرنے کی بڑی وجوہات ہیں۔دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کا کردار اور قربانیاں پوری دنیا تسلیم کرتی ہے ۔ امریکا، یورپی یونین اور دوسرے ملکوں نے بھی ان قربانیوں کو تسلیم کیا ہے، لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان میں کی جانے والی دہشت گردی کی کارروائیاں افغانستان کی سر پرستی میں ہی کی جا رہی ہیں۔ پاکستان تو کئی بار ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ چکا ہے مگر مذاکرات کی کوئی بھی نشست کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پائی جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ ٹی ٹی پی ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت مذاکرات کو کامیاب نہیں ہونے دے رہی، جس کے پیچھے بھارت اور امریکا ملوث ہے۔ افغان طالبان کے پاکستان میں موجود نظریاتی گروپس ان کی کھلے عام حمایت کرتے رہے، غیرقانونی تجارت،اسلحہ اور گاڑیوں کی اسمگلنگ، ڈرگز اور منشیات کی اسمگلنگ نے پاکستان کی معیشت کو دیوالیہ کردیا۔ بھارت نے بھی ان حالات سے خوب فائدہ اٹھایا، ماضی میں بھی بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ رہا اور اب بھی ہے۔

افغانستان ہمارا پڑوسی اور برادر اسلامی ملک ہے جس کا پاکستان نے ہر اچھے برے وقت میں انتہائی نیک نیتی اور اسلامی اخوت کے جذبے سے ساتھ دیا ہے۔ اس وقت بھی جب ساری عالمی برادری اس کے ساتھ سفارتی تعلقات سے کنارا کش ہو گئی ہے۔ پاکستان اس کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کی وکالت کر رہا ہے۔ روس اور امریکہ کے حملوں کے دوران افغانستان سے بے گھر ہونے والے لاکھوں مہاجرین کو پاکستان نے سالہاسال سے پناہ دے رکھی ہے اور ان کی اس کے باوجود کفالت کر رہا ہے۔ کہ ان میں سے کئی لوگ مختلف جرائم کے ارتکاب میں پکڑے بھی گئے ہیں۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ کابل حکومت نے ان فراخ دلانہ اقدامات کے بدلے میں پاکستان کی مشکلات کے حل میں مدد دینے کی بجائے الٹا اپنی سرزمین سے دہشت گردانہ حملوں اور تخریبی سرگرمیوں کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ پاکستان کی حکومت اور مسلح افواج نے اپنی اپنی سطح پر طالبان حکومت کو اپنے علاقے سے پاکستان کے خلاف ہونے والی دہشت گردی روکنے کیلئے بار بار توجہ دلائی مگر نتیجہ صفر نکلا۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کی 2,640 کلومیٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کو امریکی انخلا اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد افغانستان سے عدم تحفظ اور تشدد کے پھیلاو ¿ کو کم کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھا گیا۔تاہم جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ سرحد پر باڑ لگانے کے باوجود پاکستان میں دراندازی کو نہیں روکا جا سکا۔

شورش اور دہشت گردی کے تناظر میں، مختلف گروپوں کے مابین انضمام اور اتحاد دہشت گرد تنظیموں کی ملکیت اور لمبی عمر کے کلیدی اجزا ہیں۔ایک عسکریت پسند گروپ جتنا زیادہ متحد ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ مہلک ہوتا جاتا ہے۔ پچھلے دو سالوں میں تقریباً تمام عسکریت پسند دھڑے ٹی ٹی پی کے ساتھ ضم ہو چکے ہیں اور اپنی آپریشنل طاقت کو بڑھاتے ہوئے پاکستان میں اپنی جغرافیائی رسائی کو بڑھا رہے ہیں۔ یہ تمام انضمام اور اتحاد پاکستان میں عسکریت پسندوں کی بحالی میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔اس وقت خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں آرمی سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ٹھکانوں اور گاڑیوں پر افغان علاقوں میں پناہ لینے والے کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردی منظم حملے کر رہے ہیں۔پاکستان عالمی سطح کے ہر فورم پر افغانستان کے حق میں آواز اٹھاتا رہا ہے۔ مگر افسوس افغانستان کی جانب سے پاکستان کی کوششوں کو سراہنے کے بجائے اس کی سرزمین پر دہشت و وحشت کا بازار گرم کرکے اس کے خلوص کا صلہ دیا گیا اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی سرپرستی کر کے پاکستان کے ساتھ دشمنی کا عملی ثبوت دیا گیا۔دوسری جانب پاکستان کے دشمن بھارت کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھا کر اس کی سازشوں کو تقویت پہنچائی گئی۔ اس کے باوجود پاکستان نے نیک نیتی کے ساتھ افغان امن عمل کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں کیونکہ پرامن افغانستان پاکستان سمیت خطے کے لیے ناگزیر ہے۔

اس وقت افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ سے کئی دہشت گرد تنظیمیں فروغ پا رہی ہیں، جن پر قابو پانے میں افغان حکومت مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے پالیسی ساز اس آس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ جب افغانستان میں افغان طالبان کی دوست حکومت قائم ہوگی تو پھر ٹی ٹی پی جو کہ ” را “ کی پیداوار ہے اور افغان طالبان کا ٹی ٹی پی سے کوئی تعلق نہیں وہ خود بخود ختم ہوجائے گی۔یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ٹی ٹی پی کی تمام لیڈر شپ کو امریکی ڈرون حملوں میں مار دیا گیا جس میں مولانا نیک محمد، بیت اللہ محسود اور ملا فضل اللہ اور حکیم اللہ محسود بھی شامل ہیں، جب دوحہ میں طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات معطل ہوئے تو اسی پاکستان نے تمام فریقوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا اور مذاکرات کی کامیابی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ افغانستان کی موجودہ حکومت کی مدد کے لیے اسلام آباد میں او آئی سی کا اجلاس طلب کیا اور افغانستان کے لیے فنڈ اکٹھے کرنے کا کام شروع کیا۔اس بات میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ پاکستان گزشتہ بیس سالوں میں دہشت گردی، فرقہ واریت اور خانہ جنگی کے کڑے مراحل سے گزرا ہے جس میں پونے ایک لاکھ سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اس دوران جو ایک بات کھل کر سامنے آئی وہ یہ تھی کہ کسی بھی گروہ یا تنظیم کو اس وقت تک کارروائی کی جرات نہیں ہوتی جب تک ریاستی اداروں اور سول سوسائٹی کے اندر اس کے لیے ہمدردی پیدا نہ ہو۔یہ ہمدردی گروہی یا انفرادی بھی ہو سکتی ہے اور ادارہ جاتی بھی جو سہولت کاری کی شکل میں ان کو دستیاب ہوتی ہے۔

دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے والوں میں نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جن کے اپنے بچے یورپ اور امریکا میں پڑھتے ہیں مگر وہ قبائلی علاقوں، سوات اور مالاکنڈ کے اسکولوں کو تباہ کرنے والوں کو ” اگر، مگر “ کے ساتھ جواز فراہم کرتے ہیں۔ایک اور عنصر جس سے دہشت گرد فائدہ اٹھاتے ہیں وہ عام شہریوں کا رویہ ہے۔ ان دہشت گردوں کے ہمدردوں اور ہمنوا گروہوں اور افراد کے علاوہ کچھ لوگ خوف سے اور کچھ ہمدردی میں خاموش رہتے ہیں جو دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتے ہیں۔ ان میں ہم سبھی شامل ہیں جو کھل کر برائی کی مخالفت نہیں کرتے۔دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکامی کی جو سب سے بڑی وجہ اب تک سامنے آئی ہے وہ ریاستی اداروں اور حکومت کی غیر متوازن پالیسی ہے۔ حکومت ہمیشہ مصلحت کی وجہ سے ایک پالیسی اپنانے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے کبھی سختی اور کبھی نرمی برتی گئی۔ہر بار فوجی آپریشن کے بعد دہشت گردوں کے ساتھ بار بار کیے جانے والے مذاکرات اور معاہدوں کی وجہ سے ہی ان گروہوں کو سنبھلنے کا موقع ملتا رہا۔ ہر بار کمر توڑنے کے ریاستی دعوو ¿ں کے باوجود ان گروہوں کی کارروائیاں جاری رہیں۔ ریاست کسی دوسری ریاست سے تو مذاکرات کر سکتی ہے مگر اپنے ملک کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد سے مذاکرات کس قانون اور آئین کے تحت کیے جاتے ہیں؟ ریاستیں اپنے مجرموں سے مذاکرات اور معاہدے نہیں کرتیں بلکہ ان کو پکڑ کر قانون کے تحت سزا دلواتی ہیں تاکہ دوسرے شہریوں کو تحفظ حاصل ہو جو ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔جب تک ریاست اس یک نکاتی پالیسی پر عمل پیرا نہیں ہوتی اپنی رٹ قائم نہیں کرسکے گی اور یہ بات ذہن میں ہمیشہ رکھنے کی ضرورت ہے کہ جس کی رٹ قائم نہ ہو وہ ناکام ریاست کہلاتی ہے۔اس ملک کا ہر علاقہ دہشت گردی سے متاثر ہوچکا ہے۔

Pakistan main dehshat gardi k waqiat main izafa

بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے بہت سے علاقے تو مسلسل اس عذاب کو جھیل رہے ہیں اور وہاں پر دہشت گردوں کی حکومتیں بھی قائم ہوتی رہتی ہیں۔ ایک لمبے عرصے سے اس عفریت کا شکار ہونے کے باعث اس ملک کے عوام بھی اہم نتائج اخذ کرچکے ہیں۔عوام کی ایک بہت بڑی تعداد اس حقیقت کو جان چکی ہے کہ اس تمام تر دہشت گردی اور فرقہ واریت میں ریاست کے مختلف حصے ملوث ہیں اور ان کی پشت پناہی اور امداد کے بغیر یہ سب نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان، بھارت یا کسی دوسرے ملک میں سامراجی مفادات کے ٹکراو ¿ کا ملبہ بھی دہشت گردی کی صورت میں عوام پر ہی گرتا ہے۔ ماضی میں پاکستانی ریاست ان جنگجوﺅں سے متعدد بار مذاکرات بھی کر چکی ہے۔ ایک بار پھر دہشت گرد پوری توانائیوں کے ساتھ موجود ہیں اور کسی بھی جگہ حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح ان دہشت گردوں کی مکمل معاونت کرنے والے اور ان کے لیے خام مال مہیا کرنے والے پورے ملک میں پھیلتے جا رہے ہیں۔افغانستان کے اندر جو عدم استحکام ہے اس کی وجہ سے داعش جیسی تنظیمیں بھی وہاں اپنی جگہ بنا رہی ہیں مشرقِ وسطیٰ کے حالات کی وجہ سے داعش کے جو ارکان وہاں سے آرہے ہیں وہ افغانستان میں اپنے ٹھکانے بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں یہ سلسلہ اگر بڑھتا رہا تو نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان اور پورے خطے کے لیے خطر ناک ہوگا جو افغان تنظیمیں غیر ملکی افواج کے خلاف سرگرم عمل ہیں وہ افغانستان کے اندر سے ہی آپریٹ کررہی ہیں اور یہ کہنا محض الزام تراشی ہے کہ انھیں پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔پاکستان اپنی سر زمین افغانستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے عہد پر سختی سے کار بند ہے اور افغان حکام کا بھی فرض ہے کہ وہ پاکستان پر الزام تراشی کے بجائے تعاون کا راستہ اختیار کریں اور اچھے ہمسایوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ بھارت کے جال میں پھنس کر پاکستان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈے سے افغان حکام کو کچھ حاصل نہ ہو گا۔اب چونکہ افغانستان کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے اور پاکستان اور وسط ایشیا کے ساتھ معاشی تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جارہا ہے تو اس کے لیے افغانستان پر ہی زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھارتی سازشوں کو بھانپتے ہوئے اس سے کنارہ کرے۔ٹی ٹی پی کی سرپرستی ترک کردے تو تب ہی افغانستان عالمی سطح پر ہمدردیاں حاصل کرکے دنیا سے بہتر تعلقات استوار کرسکتا ہے۔

پاکستان کے اندر ایک بااثر گروہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر انتہا پسندی کا سرپرست بنا رہا، یہ گروہ ریاستی سسٹم میں داخل ہوکر انتہاپسند نظریات کی سرپرستی کرتا رہا، دہشت گردوں کو گلوریفائی کراتا رہا،ریاستی میکنزم پر اثرانداز ہوکر انتہاپسند اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں، ہنڈلرز اورمنصوبہ سازوں کو بچاتا رہا، یہی وجہ ہے کہ تمام تر قربانیوں کے باوجود پاکستان دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں دستیاب ہیں، ٹی ٹی پی افغانستان میں پناہ گاہوں کے ساتھ ساتھ جدید ترین ہتھیار حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گئی ہے۔اس تنظیم کے دہشت گردوں کے پاس افغانستان میں امریکی فوج کے چھوڑے گئے ہتھیاروں کی موجودگی کے شواہد اس امر کا یقینی ثبوت ہیں کہ افغانستان کی طالبان حکومت اپنی سر زمین ٹی ٹی پی کو روکنے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکی ہے بلکہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنا ہی نہیں چاہتی۔کالعدم تحریک طالبان نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں، کوئی ریاست اپنے دشمنوں اور باغیوںکو برداشت نہیں کرسکتی۔ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔

پاکستان کی مسلح افواج نے اربوں روپے خرچ کر کے اور جانوں کی قربانیاں دے کر جو باڑ لگائی تھی، اس کو اکھیڑنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں اور شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا۔افغان حکومت کو اس بابت مطلع بھی کیا گیا مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، ہمارے سیکڑوں فوجی افسر و جوان، پولیس افسر اور سپاہی،ایف سی کے افسر و سپاہی اور بے گناہ شہری شہید ہوئے۔ اس کے باوجود جن کی خاطر پاکستان نے یہ زخم سہے تھے، وہ آج ہمارے ممنون ہونے کے بجائے ہمیں ہی نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ افغانستان کی پالیسی ہمیشہ پاکستان مخالفت پر استوار رہی ہے، یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے جس سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں۔ ساڑھے چار لاکھ افغانیوں کو قانونی دستاویزات کے ساتھ پاکستان لایا گیا جو واپس نہیں گئے۔اس کے علاوہ تین سے ساڑھے تین ملین افغانی غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں، انھی میں سے بعض لوگ ہیں جو گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان کو اقتصادی و معاشی میدان میں کمزور کرنے کے لیے ڈالروں کی بوریاں بھر بھرکر افغانستان اسمگل کر رہے ہیں اور پاکستان کو دیوالیہ کرنے کی گھناو ¿نی سازش کر رہے ہیں، پاکستان میں بھی اس سازش کے کردار موجود ہیں اور اب خاصی حد تک بے نقاب بھی ہوچکے ہیں ، یہ وہ ناسور ہے جو پاکستان کا مال کھا کر طاقت ور ہوا، اب اسی کی بنیادیں ہلا نے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت آنے اور اس کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باوجود پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات حکومت کے لیے تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فوجی آپریشن سے بچ کر افغانستان جانے والے طالبان جنگجو سابق حکومت کے دور میں واپس پاکستان آنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے۔ ان افراد کی سوچ پر بھی تعجب ہے جو پاکستانی طالبان کو تو دہشت گرد سمجھتے ہیں جب کہ افغان طالبان کو پاکستان کا دوست اور خیر خواہ تصور کرتے ہیں۔ہمیں اچھے طالبان اور برے طالبان کا فرق ختم کرنا ہوگا اور اس بات پر یقین رکھنا ہوگا کہ جو پاکستان کے اجتماعی عوامی مفادات کے برعکس پالیسی کے خلاف ہے، وہ پاکستان کا دوست اور ہمدرد نہیں ہے۔ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا بہت ضروری ہے، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں موجود ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ بھی ضروری ہے، یہی پاکستان کی بقا کی ضمانت ہے۔دہشت گردی کو ختم کرنے میں فوج کا کردار بہت اہم ہے اور فوج کی قربانیاں بھی بے شمار ہیں مگر فوج اکیلے یہ کام نہیں کرسکتی، نہ ہی تمام تر ذمے داری کا بوجھ فوج کے کندھوں پر ڈالا جاسکتا ہے کیونکہ اس سے فوج کی دفاعی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے، دہشت گردی پر قابو پانے کی 80 فیصد ذمے داری سیاسی حکومتوں اورسول انتظامیہ پر عاید ہوتی ہے۔نظام انصاف بھی اپنی ذمے داری سے راہ فرار اختیار نہیں کرسکتا،ملک کی سیاسی قیادت بھی اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے جب کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اپنے موقف میں واضح نہیں رہیں بلکہ الجھاوﺅپیدا کرنے کا سبب بنی ہیں۔ جب تک ملک میں موثر نظام حکومت نہیں ہوگا اور ہر شعبہ اپنا فعال کردار ادا نہ کرے ا ±س وقت تک دہشت گردی سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان