واصف علی واصف کہتے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔ آنے والے نسلوں کیساتھ ہمارا اس سے بڑا ظلم اور کوئی نہ ہوگا کہ ہم اُن کے آنے سے پہلے ہی اُن کے حصے میں انے والے لفظوں کے معنی بدل دیں۔
آئن سٹائن کہتے ہیں کہ ہر انسان سائنسدان پیدا ہوتا ہے، وہ سوال کرتا ہے لیکن والدین، معاشرہ یا کوئی اور اُن سے یہ قوت چھین لیتا ہے ۔
یہ بات مسلمہ ہے کہ قوموں کی ترقی کا انحصار وہاں کے لوگوں پر ہوتا ہے۔ جن قوموں کے لوگوں میں شعور ہوتا ہے وہ قومیں ترقی یافتہ کہلاتی ہیں اور جن قوموں کے لوگوں میں شعور کا فقدان ہوتا ہے وہ آج کی جدید ترین دور میں بھی پسماندہ کہلاتی ہیں۔ انسانوں میں مثبت شعور پیدا کرنے کےلئے قومیں اپنی تعلمیمی ںظام کو بہتربنانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے کیونکہ معیاری تعلمیم ہی قوموں کی عروج وزوال کا سبب بنتی ہے۔ مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ ایک پائیدار اور نہ ختم ہونے والی ترقی کےلئے پرائمری تعلمیمی نظام کو بہتر بنانا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ یہی بچوں نے آگے جاکے ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہے۔
بد قسمتی سے پاکستان میں اس ضمن میں بہت کم کام کیا گیا ہے۔ اور آج اس تحریر کے زریعے میں آپ لوگوں کی توجہ ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئی ایک خطرناک رجحان کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کررہا ہوں ۔ آپ دیکھیں کہ آج ہمارے ہاں ہر گلی ، ہر محلے اور ہر شہر میں درجنوں ٹیوشن سنٹرز قایم کئے جارہے ہیں ۔ لوگ جوک درجوک اپنے بچے اس میں داخل کروارہے ہیں ۔ کئی ایسے والدین بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کا داخلہ سکول میں کرواکے بچوں کو ٹیوشن سنٹر میں ڈال دیتے ہیں ۔ ایک اُستاد کو اپنے سکول سے زیادہ اپنے ٹیوشن سنٹر کی فکر ہوتی ہے وہ اس کوشش میں ہوتا کہ کس طرح بچوں کو اس طرف راغب کیا جائے۔ وہ بڑے فخر سے اس بات کا چرچا کرتے ہیں کہ ہمارے اکیڈمی کے فلاں طالب علم نے اتنے نمبر لےکر پہلی دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کی۔ یہ ایڈورٹائزمنٹ اس لئے کی جاتی ہے کہ بچے اس کو دیکھ کر اور بھی اس طرفف آجائیں اور ہم ان کو سمجھا سکیں کہ بیٹا آپ نے کس طرح پاس ہونا ہے اور آپ نے کس طرح سے اچھے نمبر حاصل کرنے ہیں ۔ ٹیوشن سنٹروں کی اس پرچار اور شہرت کو دیکھ کر سکولوں نے بھی اپنے اداروں میں بچوں کو پاس ہونے اور اچھے نمبرز لینے کے طریقے متعارف کرنا شروع کردئے ہیں ۔
سکول میں کلاس کے دوران اُستاد صاحب اپنے شاگردوں سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ دیکھو بچو۔۔ یہ بہت اہم سوال ہے کیونکہ یہی سوال پچھلے امتحان میں بھی آیا تھا ۔ بچے نوٹ کررہے ہوتے ہیں کہ ہاں یہ بہت اہم سوال ہے اور وہ اسے یاد کرنے کی کوشش مین لگ جاتے ہیں۔
ایک ادارے کے سربراہ کا کسی اُستاد کو جانچنے کا پیمانہ یہی ہوتا کہ اس استاد کے مضمون نے بچوں نے نمبرز زیادہ لئے ہیں ۔ والدین جب بچوں کو سکول میں داخل کرواتے ہیں تو وہ یہی دیکھتے ہیں کہ اس سکول میں بچوں کے نمبرز اچھے آتے ہیں۔ اور بچے داخل کروانے کے بعد سکول انتظامیہ کی طرف سے یہ تاکید کی جاتی ہیں کہ بچوں کے ٹیوشن سنٹر میں ضرور داخل کروایئں تاکہ بچوں کے نمبر اچھے آئیں ۔
حقیقت یہ ہےکہ ہر ٹیوشن سنٹر کے قیام کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو پاس ہونا اور اچھے نمبر حاصل کرنا سیکھایا جائے۔ اور بد قسمتی سے ہمارا معاشرہ یہی سمجھتا ہے کہ تعلیم کا بنیادی مقصد اچھے نمبروں سے پاس ہونا ہے اور پھر ایک اچھی سے نوکری کا حصول ۔۔ بس ۔۔۔ اور کچھ نہیں ۔۔۔۔
اب آپ ذرا غور کریں ، ایکسپلور کریں، گوگل پہ سرچ کریں ، دانشوروں سے پوچھیں ، کتابیں پڑھیں، تاریخ کا مطالعہ کریں آپ کو تعلیم کی یہ معانی کہیں سے بھی نہیں ملے گی جو ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہے اور اس کی باقاعدہ بنیاد ڈال رہے ہیں ۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے انے والی نسلوں کو اور قوم کے معماروں کو صرف ایک کٹھ پتلی بنا رہے ہیں ۔ ہم اپنے قوم کے معماروں سے ان کے خواب چھین رہے ہیں ۔ ہم اپنے معماروں سے اُن کی صلاحیتیں چھین رہے ہیں ۔ ہم اپنے مشاہینوں کے پر کاٹنے میں مصروف ہیں ۔ ہم انیں بزدل بنانے میں لگے ہوئے ہیں ۔ ہم انہیں کریٹیویٹی سے دور بھگا رہے ہیں ۔ ہم نے بچوں کے درمیان مقابلے کی ایک فضا قایم کر رکھی ہے جو کہ حد درجہ خطرناک ہے۔
ایک بچہ صرف پانچ سال کے قلیل عرصے میں پوری زبان سیکھ جاتا ہے ۔ چلنا سیکھ جاتا ہے اس میں بلا کا کانفیڈنس ہوتا ہے وہ یہی کانفیڈنس لیکر جب سکول جاتا ہے تو پاس اور فیل ہونے کی کشمکش میں ہم ان سے یہ ہتھیار چھین لیتے ہیں ۔ اور مجبور ہو کر ٹیوشن سنٹروں کا رخ کرلیتے ہیں جہاں اسے ڈرا کر یہ بتایا جاتا کہ اگر تمیں نوکری نہیں ملی تو تم زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہونگے ۔ تمیں رزق کہیں سے نہیں ملےگا۔ لہذا انہیں بزدل بنا کر ان کے پر کاٹ کر فخر محسوس کرتے ہیں ۔
میں تمیں بتاتا چلوں کہ مدرسے، سکول اور ادارے اس لیے نہیں بنے کہ ہم بچوں کو گریڈ میں تقسیم کریں ۔ انہیں مستقبل سے ڈرایئں ۔ بلکہ تعلمیم مقصد یہ کہ انسان کے اندر اللہ نہ بے پناہ صلاحیتیں پید کی ہیں ان صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کےلئے اداروں، سکولوں اور مدرسوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔
یہ ہماری بدقسمتی یے کہ ادارے ہوتے ہیں شاہیں پید کرنے کےلئے ، اور ہم پیدا کررہے ہیں کرگس۔۔ کرگس کی یہ خاصیت ہے کہ کرگس اُڑان تو بھرتا ہے لیکن صرف مردار کھانے لئے اور ڈھونڈنے کےلئے۔ شاہین کی یہ خاصیت یہ کہ اُن کے اندر بلند سے بلند تر کی جستجو ہوتی ہے وہ منزلوں سے آزاد ہوتا ہے کیونکہ منزل قید ہے ۔۔۔۔۔ یہی فرق ہوتا ہے میعاری اور غیر معیاری تعلیم میں ۔
یاد رکھیں جتنی زیادہ ٹیوشن سنٹرز ہونگے ، اتنے زیادہ لوگوں میں پاس ہونے اور اچھے نمبرز لےنے کا رجحان بڑھے گا اور اتنے ہی زیادہ ہمارے تعلیم یافتہ لوگ کم ہونگے ۔ کیونکہ تعلیم یافتہ شخص کی تعریف یہ کہ تعلیم یافتہ شخص کسی بھی ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے اور اس کے اندر حوصلہ ہوتا ہے ۔ بہادری ہوتی ہے اور شاہین جیسی سوچ ہوتی ہے۔
لہذا میں حکومت پاکستان سے گزارش کرتا ہوں کہ ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنے تعلمیمی نظام کو جدید تقاضوں سے اہم اہنگ کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں اصلاحات کرنے ہونگے ہمیں ترقی یافتہ ممالک سے سیکھنا ہوگا کہ وہ کس طرح روز نئے نئے سائنسدان پیدا کررہے ہیں ۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ آج تک ہم ایسے لوگ کیوں پیدا نہیں کرسکے جو کچھ نیا کریں ۔ جو کچھ الگ کریں ۔ جو کچھ نیا ایجاد کریں۔ جو ایک نئی تبدیلی لے کر آئیں ۔ ایسا تب ممکن ہوگا جب ہم اپنے شاہینوں کو بتا سکیں کہ تم شاہین ہو، تم کرسکتے ہو تمیں کرنا ہوگا، نوکری کےلئے مت پڑھو، پاس ہونے کےلئے مت پڑھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہم نے بروقت اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہ کی تو یاد رکھیں انے والے نسلوں کےلئے تعلیم کا مفہوم صرف پاس ہونا اور نوکری کا حصول ہوگا۔اور یہ سب سے بڑا ظلم ہوگا ، زیادتی ہوگی، نا انصافی ہوگی اور بدیانتی ہوگی، تاریخ ہمیں بہت برے الفاظ کےساتھ یاد کریگی۔ کیونکہ یہ نسلوں کی تباہی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔