آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کی طرف سے یہ پیغام وزیراعظم بینظیر بھٹو کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر عبدالقیوم کو ملا تو وہ سٹپٹا اٹھے۔ پیغام رساں بھی کوئی عام آدمی نہیں بلکہ آرمی چیف کے ساتھ تعینات سینیئر فوجی افسر جاوید افضل تھے۔
یہ پیغام وزیراعظم تک پہنچا یا نہیں اور اس کے بعد کیا ہوا؟ اس کی تفصیل ذرا دیر میں۔
اس وقت اہم نکتہ یہ ہے کہ اس طرح کے ناخوشگوار اور بہت سے اہم قومی معاملات کے فیصلے اور خفیہ پیغامات وزیراعظم تک کیسے پہنچتے ہیں، وزیراعظم اپنے دفتری، اہم اور حساس ترین قومی معاملات انجام دینے میں کن لوگوں پر انحصار کرتے ہیں، اس مضمون میں اسی کی تفصیل بتانا مقصود ہے۔
لیکن پہلے ایک صوبائی کابینہ کے وزیر کو دی گئی دھمکی کی کہانی مکمل کرتے ہیں۔
اس کہانی کا پس منظر کچھ یوں تھا کہ 1994/95 کے موسم گرما میں صوبہ سرحد کے صوبائی وزیر تعلیم خواجہ محمد خان ہوتی پُرفضا مقام ناران جار ہے تھے کہ راستے میں ان کے پروٹوکول سٹاف میں شامل ان کے سکیورٹی گارڈز کی ایبٹ آباد کے مقام پر سول کپڑوں میں ملبوس ایک فوجی میجر سے مڈھ بھیڑ ہوگئی۔
فوجی افسر کا سکیورٹی گارڈز سے تنازع گاڑی گزرنے کے معاملے پر ہوا اور غالباً اس کا پاؤں بھی زخمی ہوگیا۔
فوجی افسر کو سی ایم ایچ منتقل کردیا گیا۔ اور معاملہ بڑھتے بڑھتے آرمی چیف تک جا پہنچا تو انھیں غصہ آگیا۔
ان کی طرف سے وزیراعظم بینظیربھٹو کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر عبدالقیوم کے ذریعے پیغام دیا گیا تاکہ سولین سائیڈ کو پتا ہوکہ ان کے وزیر کو اگر کوئی نقصان پہنچا تو اصل وجہ کیا ہے۔
اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے سابق صوبائی وزیر خواجہ احمد خان ہوتی بتاتے ہیں کہ ’مجھے کچھ لوگوں کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ میرا پاؤں توڑنے کے لیے لوگ گھوم رہے تھے، میں خود حیران تھا کہ اس معاملے سے میرا کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا۔‘
’جھگڑا میرے گارڈز کے ساتھ ہوا تھا۔ اس معاملے پر میں نے زخمی میجر سے ہسپتال میں چیف سیکرٹری اعجاز رحیم کے ہمراہ ملاقات کی تھی۔ میجر مجھ پر الزام عائد کررہا تھا مگر میرے سامنے آنے پر وہ مجھے پہچان بھی نہیں پایا تھا۔‘