تازہ ترین

میڈیا بحران پر بنائے گئے نغمے کا کیا بنا؟

muhammad ali azhar
  • واضح رہے
  • جون 7, 2019
  • 3:39 شام

صحافی کم گلوکار نے سوچا ہوگا کہ منفرد احتجاج کے بعد شاید حالات بدل جائیں گے، مگر اب معاملات اس قدر خراب ہوگئے ہیں کہ بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔

پاکستان میں صحافتی اداروں اور صحافیوں کے حالات تشویش ناک حد تک بگڑ گئے ہیں۔ انگریزی اور اردو کے متعدد اخبارات بند ہوچکے ہیں، جبکہ بہت سے میڈیا ہاؤسز پر عملے کی تعداد نصف سے بھی کم ہوگئی ہے۔ کچھ ادارے تو ویران ہی پڑے ہیں۔ اب تک سیکڑوں صحافی اور صحافتی اداروں سے وابستہ افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔ کئی کئی ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے کے باعث صحافی آمدن کے متبادل ذرائع ڈھونڈنے پر مجبور ہیں۔ ملک کے مختلف پریس کلبز میں صحافی حضرات ایک دوسرے سے "پیشرفت" کے بارے میں دریافت کرتے نظر آتے ہیں، مگر سچ تو یہ ہے کسی کو کچھ نہیں پتا کہ آگے کیا ہوگا۔

کئی اخبارات میں عملہ نمایاں حد تک کم ہونے کے باوجود بروقت تنخواہیں ادا نہیں کی جا رہیں۔ کہیں دو ماہ تو کہیں 4، 5 ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں، لیکن بچا کچا عملہ انتہائی تندہی سے کام کر رہا ہے۔ جنگ اخبار میں بھی صحافیوں اور دیگر اسٹاف کو گزشتہ ماہ کی تنخواہ نہیں ملی۔ اسی طرح دنیا نیوز نے اپنے ورکرز کی تنخواہوں میں 10 فیصد کٹوتی کردی ہے۔ اس کٹوتی کا جواز یہ بنایا گیا ہے کہ ڈالر کی اونچی اُڑان کے باعث درآمدی کاغذ مہنگا ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے تنخواہوں میں کمی کی گئی۔ معلوم ہوا ہے کہ اِکا دُکا ادارے اپنے ورکرز کو تنخواہیں بروقت ادا کر رہے ہیں، تاہم مجموعی طور پر صورتحال انتہائی پریشان کن ہے۔ صحافی، ایڈیٹرز، سب ایڈیٹرز اور ٹیکنیکل اسٹاف تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر شدید اذیت میں مبتلا ہیں۔ تاہم مالکان نے ان کے مالی مسائل کو حل کرنے کے بجائے اپنے دکھڑے رونا شروع کردیئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ملک کے سب سے بڑے اخبار کے مالک اپنے ورکرز کے نمائندوں کے سامنے خود کو کنگال ظاہر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

مذکورہ صحافی اس ویڈیو میں گُنگناتے ہوئے یہ بتا رہا ہے کہ تنخواہ نہ ملے ہوئے 4 مہینے ہوگئے ہیں۔ جبکہ یہ ویڈیو بھی تقریباً 4 مہینے پرانی ہے۔ جب یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تو صحافی برادری میں کافی مقبول ہوئی۔ صحافیوں کا خیال تھا کہ شاید منفرد احتجاج کے بعد کوئی بریک تھروو ہوگا اور ان کی تنخواہیں بحال ہوجائیں گی، لیکن اب تک ایسا نہیں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف صحافتی تنظیمیں بھی پریس کلبز کے سامنے احتجاج کر چکی ہیں اور مالکان سے مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ صحافیوں کی جبری برطرفی بند کی جائے اور انہیں ان کے بقایاجات اور تنخواہیں ادا کی جائیں، تاکہ مہنگائی کے اس دور میں ان کی مشکلات مزید نہ بڑھیں۔ تاہم اب یہ احتجاج بھی دم توڑتا ہوا نظر آرہا ہے اور ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے۔

ادھر روزنامہ نئی بات نے موجودہ صورتحال میں حکومت کے کردار پر شدید احتجاج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ صحافیوں کا معاشی قتل عام کیا جا رہا ہے۔ 17 اپریل کو نئی بات میں شائع کی گئی خبر میں بتایا گیا کہ پنجاب حکومت کی طرف سے ادارے کے اشتہارات بند کر دیئے گئے ہیں۔ اشتہارات بندش پر لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری نے کہا کہ ملک کی تمام صحافی برادری اس کی پُر زور مذمت کرتی ہے، ان کا کہنا تھا ایسے اقدام آزادی اظہار اور آزادی صحافت پر قدغن ہے۔ جبکہ صدر پی ایف یو جے رانا عظیم نے کہا کہ روزنامہ نئی بات کے اشتہار بند کرنا آزادی صحافت پر حملہ ہے۔ جنرل سیکریٹری لاہور فوٹو جرنلسٹ ایسوسی ایشن پرویز الطاف کا کہنا تھا کہ ورکرز کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے ہیں، یہ کوئی سیاسی ایشو نہیں ہے، صحافیوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی ہو رہی ہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے