ملک سے کرپشن ختم کرنی ہے تو احتسابی عمل انتظامیہ سے الگ اور عدلیہ کے حوالے کرنا ہوگا، تاکہ حکومتی جماعتیں اسے اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہ کرسکیں۔ اسی طرح سب سے پہلے احتساب بھی انہی کا ہونا چاہئے جو حکومت میں ہوں۔ جبکہ حزب اختلاف کی اکاؤنٹبلیٹی بھی ساتھ ساتھ چلتی رہے۔ دریں اثنا احتسابی عمل سے متعلق افسران کی ملازمت کی سیکورٹی ہونی ضروری ہے۔ یہ باتیں عام لوگ اتحاد کے چیئرمین جسٹس (ر) وجیہ الدین نے پاکستانی قوم بالخصوص اپنے پارٹی اراکین سے سوشل میڈیا کے ذریعے کہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے لیکن کرپٹ اور عوام دشمن عناصر نے ہمیں گداگری کا طوق پہنا کر کاسئہ گدائی تھمادیا ہے۔ ہر حکومت کرپشن کے خلاف بلند و بانگ نعرے مارکر آتی ہے۔ کچھ عرصے یہی چرچہ رہتا ہے اور پھر حسب روایت کرپٹ عناصر سے مک مکا ہو جاتا ہے اور سب شریک جرم ہوجاتے ہیں۔ اب اٹھارویں ترمیم میں رد و بدل کیلئے حزب اختلاف کو نرم احتساب کا لالچ دیا جا رہا ہے۔ ہمیشہ کی طرح ضرورت حقیقی احتساب کی ہے۔
اس حوالے سے عام لوگ اتحاد کے منشور میں سے چیدہ چیدہ نکات نذرِ قارئین ہیں:
° دھاندلی شدہ اثاثوں کی بازیابی اور ملزمان کو کیفر و کردار تک پہنچانے کا طریقہ یہ ہے کہ کرپشن کی سرکوبی خود حکومتی ارکان اور اہل اقتدار کی ماضی کی لغزشوں سے ہونی چاہیئے۔
° گزری ہوئی حکومتوں اور افسران کا مواخذہ ساتھ ساتھ، مگر بلا کسی سیاسی عناد کے ہو۔
° قومی احتساب بیورو (نیب) اور احتساب کمشنر متبادل ادارے نہیں ہونے چاہیئں بلکہ چیف اکاؤنٹبلیٹی کمشنر کے ساتھ کم و بیش اسی درجے کی ایک ٹیم ہونا لازمی ہے، تاکہ ایک طرف تو تقسیم کار ہوسکے اور دوسری طرف بے حساب کیسوں میں مناسب افرادی قوت بھی مہیا ہو۔
° احتساب کمیشن کی ذمہ داری ہو کہ وہ ہر 6 ماہ میں اپنی کارکردگی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرکے ان سے ہدایات حاصل کرے۔
° احتسابی عدالتوں میں ایسے جج متعین کیے جائیں جو سیشن کورٹ یا ہائی کورٹ سے گزشتہ تین سال کے اندر باعزت سبکدوش ہوئے ہوں۔ اس لئے کہ ایک تو ان کاموں میں تجربے کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور دوئم حاضر سروس ججز کی تعداد کم اور زیر سماعت مقدمات کی مقدار ضرورت سے زیادہ ہے۔
° احتساب عدالت کے ججوں کی مدت ملازمت 5 سال سے کم ہو اور نہ قابل توسع ہو۔
° یہ جج صاحبان اسی ہائی کورٹ کی ایڈمنسٹریشن کمیٹی (چیف جسٹس بمع 5 یا 7 ججز) کے تابع ہوں، جہاں ان کی وقتاً فوقتاً تعیناتی کی گئی ہو۔
° ان کی تنخواہیں اور مراعات ہائی کورٹ ججوں کے مساوی ہوں۔
° ان جج صاحبان کی تقرری و تعیناتی سپریم کورٹ کا استحقاق ہونا چاہئے۔ خود چیف احتساب کمشنر، ذیلی احتساب کمشنر اور اکاؤنٹبیلٹی عدالتوں کی جج، سپریم جوڈیشل کاؤنسل کے ذریعے سے ہی معزول کئے جاسکیں، بالکل ایسے ہی جیسے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی بد عنوانی کے خلاف سپریم جوڈیشل کاؤنسل ہی تادیبی کارروائی کرسکتی ہے۔
° نیب آرڈی ننس مشرف کے ابتدائی دور کی پیداوار ہے۔ بعد کی حکومتوں نے، مفادات کے پیش نظر اس میں تبدیلیاں کر کے صرف حزب اختلاف کو دیوار سے لگانے کا آلہ کار بنالیا ہے۔ اب پھر سے حزب مخالف کو 18 ویں ترمیم کی کاٹ چھانٹ کی رضا مندی کیلئے نیب آرڈی ننس کو نرم کرنے کی سودے بازی عروج پر ہے۔
° جس طرح موجودہ پارلیمان اور صوبائی اسمبلیاں عوامی نمائندگی کم اور زر و زمین کی نمائندگی زیادہ کرتی ہیں، سپریم کورٹ کی ازخود کارروائیوں کا احاطہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔
° پہلے ہی سپریم کورٹ کا استحقاق بنیادی حقوق کی پامالی اور آئین کے تحفظ کو گرفت میں رکھے ہوئے ہے۔ لہذا قوانین میں ایسی کوئی بھی تبدیلی جو بدنیتی پر مبنی ہو یا جس کے ذریعے مفاد عامہ، بمعنی بنیادی حقوق، کو ٹھیس پہنچے سپریم کورٹ کی دسترس میں آتے ہیں۔
° یقیناً ملک گیر کرپشن اور عوامی استحصال جیسے امور سے متعلق قانون سازی کا نوٹس آئین کی شق 184(3) کے تحت سپریم کورٹ مستعدی سے بلا تعمل لے سکتی ہے۔
° آخری دو باتیں یہ ہیں کہ نیب آرڈی ننس کا دائرہ اختیار، مستقل سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہوگا۔
° نیب کے علاوہ، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ وغیرہ، جن کی جانچ اور کارکردگی وفاقی سطح پر سپریم کورٹ اور صوبے کی حد تک ہائی کورٹس کی دسترس میں آتی ہیں۔
اس طرح احتسابی عمل کو حکومتوں سے چھٹکارہ دلا کر کرپشن کے عفریت، کو بتدریج صفحہ ہستی سے مٹایا جاسکتا ہے۔