تازہ ترین

لوٹو پاکستان کو

bijali
  • خرم علی راؤ
  • جون 2, 2020
  • 3:30 شام

یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت کا ذکر ہے یعنی  1994ء  کاکہ امریکا بہادر کی جانب سے  بظاہرایک ہمدردانہ منصوبہ پاکستان کومستقبل میں لوڈ شیڈنگ سے محفوظ رکھنے کے لئے پیش کیا گیا

اور اسکی منظوری کے لئے کہا گیا یہ منصوبہ انڈی پینڈنٹ پاور پروجیکٹس کا تھا۔  ابتدائی کاروائیوں کے بعداس وقت کے حکمرانوں نے بجلی بنانے کی نجی کمپنیوں سے ایسے معاہدے کیے جن کی شرائط کا زیادہ تر فائدہ نجی کمپنی کو تھا‘ بجلی خریدنے والے سرکاری ادارے اور صارفین کو نہیں۔ ایک تو نجی کمپنیوں کو حکومت نے یہ ضمانت دی کہ وہ ہر حال میں ان کی بجلی کی ایک خاص مقدار کی قیمت لازمی طور پر ادا کرے گی خواہ استعمال کرے یا نہ کرے۔

یہ ضمانت اس لیے دی گئی کہ بجلی کے منصوبوں میں سرمایہ کار اربوں روپے لگاتا ہے۔ وہ بے یقینی کی کیفیت میں سرمایہ نہیں لگا سکتا کہ اس کی بنائی ہوئی چیز منڈی میں فروخت ہو یا نہ ہو۔ دوسرےان کمپنیوں سے بجلی خریدنے کا جو نرخ (ٹیرف) مقرر کیاگیا وہ بہت زیادہ تھا۔ اس معاملہ پراسو قت نجی ماہرین نے بہت کچھ شورمچایا لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں بجلی بہت مہنگی ہوگئی۔

اس منصوبے پر مجموعی طور پر 17 آئی پی پیز نے 51.80 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی تھی جو اب تک 415 ارب روپے منافع اور 310 ارب روپےکا ڈیوڈنٹ حاصل کرچکے ہیں۔ 2002ء  کے مشرف دورمیں اصل پاور پالیسی کو تبدیل کرکے آئی پی پیز کو مزید اضافی مراعات دی گئیں۔ کہا جاتاہےکہ مراعات حاصل کرنے والوں میں حکومت میں شامل وزیر اور مشیر کے علاوہ وزیراعظم کے معاون خصوصی کی کمپنی مبینہ طورپر پیش پیش تھی۔پالیسی کے تحت ٹیرف کے نرخ روپے کے بجائے ڈالر میں کرنے سے آئی پی پیز کا طے شدہ منافع (IRR) 17 فیصد کے بجائے 27 فیصد تک پہنچ گیا جس میں روپے کی ڈی ویلوایڈیشن بھی شامل تھی۔

اس کے علاوہ بجلی نہ لینے کی صورت میں بھی آئی پی پیز کو 60 فیصد کیپسٹی سرچارج کی ادائیگی اور فیول کی مد میں اربوں روپے اضافی دیے گئے جن سے اِن کمپنیوں کا منافع 50سے 70 فیصد تک پہنچ گیا اور سرکولر ڈیٹ بڑھتے بڑھتے 1400 ارب روپے تک پہنچ گیا جبکہ آئی پی پیز کی اضافی ادائیگیوں کی وجہ سے نیپرا کو بجلی کے نرخ بار بار بڑھانے پڑے اور اس طرح ہماری صنعت کو دی جانے والی بجلی خطے میں سب سے مہنگی ہوگئی جس کی وجہ سے ہماری پیداواری لاگت میں تیزی سے اضافہ ہوا اور ہم عالمی منڈیوں میں مقابلے کے قابل نہیں رہے اور گزشتہ کئی سالوں میں پاکستان کی درآمدات غیر مقابلاتی ہونے کی وجہ سے بڑھنے کے بجائے کم ہوئی ہیں۔

ایک اورحالیہ سرکاری رپورٹ میں گزشتہ20سال سے وزارت بجلی اورنیپراکی ناقص کارکردگی اورکوتاہیاں بھی بیان کی گئی ہیں اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وزارت بجلی اور نیپرا نے آئی پی پیز کی سنگین کوتاہیوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔آئی پی پیز غلطیوں والے طریقہ کار کے تحت انٹرنل ریٹ آف ریٹرن وصول کرتی رہیں اور ان کے قرض ادائیگی کے تعین کا طریقہ کار ناقص ہے۔کمپنیوں کے ساتھ ڈالر میں طے آئی آر آر کو روپے کی قدر میں کمی کے باعث کبھی فکس کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

آئی پی پیز نے زیادہ بجلی پیداواری ٹیرف حاصل کرنے کیلئے نیپرا کو غلط معلومات دیں۔ کمرشل آپریشنز ڈیٹ ٹیرف کے لیے غلط معلومات فراہم کی گئیں۔ 2002 پاور پالیسی والے آئی پی پیز نے فیول کی مد میں 210 ارب روپے کی اضافی وصولی کی۔ 2002 کی پاور پالیسی کے تحت لگنے والے پاور پلانٹس کو 105 ارب روپے کی اضافی ادائیگی کی جا چکی ہے۔رپورٹ کے مطابق طریقہ کار کو درست نہ کیا گیا تو آئندہ یہ کمپنیاں 1ہزار 23 ارب روپے کا ناجائز فائدہ اٹھائیں گی۔ 2002 کی پاور پالیسی کے تحت لگنے والے پاور پلانٹس کو 105 ارب روپے کی اضافی ادائیگی کی جا چکی۔

اب یہ ساری مذکورہ بالا رپورٹس اور تحاریر مصدقہ ذرائع سے حاصل شدہ اور  پہلے سےشائع شدہ ہیں اور ان میں بیان ہونے والی مالی بے ضابطگیوں کی  رقم گزشتہ پچیس سال میں ڈیڑھ ہزار ارب روپے سے زیادہ ہے کیا سمجھے؟ڈیڑھ ہزار ارب روپے سے زیادہ!۔ ذرا دیکھیں کہ 1994 میں امریکا بہادر کے ایک پیش کردہ بظاہر پاکستان کے لئے فائدہ مند منصوبے میں کیسا دام ہمرنگ زمیں تھا۔ ایک قدم جس سے  پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے بیک وقت کئی فائدے اٹھائے گئے کیونکہ بجلی کی ضرورت زندگی کے ہر شعبے میں لازمی ہےاور ان نقصانات میں مثلا جیسے میں اور آپ سالوں سے جو مہنگی بجلی کے بل بھر بھر کر دوہرے ہوچکے ہیں، میرا صنعتکار بجلی مہنگی ہوجانے کے سبب بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنی برآمدات کے لئے مقابلے سے باہر ہوگیا،

ذراعت کے شعبے پر جو منفی اثرات اس کی وجہ سے مرتب ہوئے وہ اپنی جگہ، مہنگی بجلی سے ہر شعبہ ہائے زندگی میں تیاری کی لاگت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ اور پھر گردشی قرضوں کی لعنت۔ یہ سب اپنی جگہ پر ہے لیکن میرا سوال یہ ہے کہ جب پاکستان کو برباد کردینے والے ایسے منصوبے عمل میں لائے جارہے تھے جب حکومت پاکستان نہیں بلکہ ریاست پاکستان مختلف ایسی ضمانتیں دئ رہی تھیں جو کہ حیرت انگیز طور پر آئی پی پیز کو ہر لحاظ سے فائدہ ہی فائدہ دے رہی تھیں اسوقت ہمارے لیڈران اور رہبران، نوکر شاہی کے اعلی تعلیم یافتہ اور قابل لوگ جن کی  قابلیت میں اضافوں کے لئےاور قومی اور بین الاقوامی کورسز پر تربیت پر ریاست پاکستان لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے اورتوانائی کے وزراء اور دیگرسرکاری ماہرین کیا کررہے تھے؟ اور ملکی تاریخ میں ایسے نہ جانے کتنے ہی چھوٹے بڑے منصوبے اور پروپوزل منظور کرلئے گئے اور پاکستان کو نقصان پہنچتا رہا لیکن وطن عزیز کے ذمہ داران اور بڑے گونگے کا گڑ کھاکر چب چاپ خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہے کیونکہ اس گڑ کی کئی قسمیں بڑی صحت افزا،ذاتی زر افزا اور میٹھی ہوتی ہیں۔

اب موجودہ حکومت نے چلیں کم از کم اس سارے معاملے کو بے نقاب تو کیا ہے لیکن اگر اس ساری بے نقاب کرنے کی کاروائی اوراس سارے فرانزک آڈٹ کے نتیجے میں آئی پی پیز کے علاوہ دیگر قصور وار پائے جانے والے سرکاری،نیم سرکاری اور نجی چھوٹے بڑےلٹیروں کی خلاف ٹھوس کاروائی نہیں کی گئی اور ان سے وہ سب وصول نہیں کیا گیا جو انہوں نے بڑی سرد مہری سفاکی اور خود غرضی سے ریاستی خزانے سے اور عوام کی جیبوں سے لوٹا ہے تو پھر یہ ساری کاروائی نہ صرف نمائشی قرار پائی جائے گی بلکہ موجودہ حکومت کے گلے کا سب سے بڑا طوق بھی ثابت ہوگی۔

خرم علی راؤ

خرم علی راؤ،، پیشے کے اعتبار سےسائنس ٹیچر ہیں،،کالم نگار،بلاگر،پروفیشنل ترجمہ نگار، بھی ہیں،

خرم علی راؤ