اس بار رمضان کا بابرکت مہینہ اپنی روحِ اصل میں ہمیں نصیب ہوا ہے۔ دیکھا جائے تو ایک پُراسرار بیماری نے ہمیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور بھی مضبوطی کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ یہی نہیں، اس بار اشیائے خور و نوش بالخصوص رمضان کی سوغات کہلائی جانے والی غذاؤں کی خریداری میں بھی پہلی جیسی تیزی اور گہما گہمی نہیں۔ اسے موسم کا کوئی اثر کہیں یا کچھ اور۔ مگر یہ بات ضرور دیکھنے میں آئی ہے کہ رواں رمضان المبارک میں لوگوں کو زیادہ بھوک نہیں لگ رہی ہے۔
اس حوالے سے ’’واضح رہے‘‘ نے اپنی نوعیت کا ایک دلچسپ سروے کیا ہے۔ جس میں عوام سے یہی سوال پوچھا گیا ہے کہ کیا اس بار رمضان المبارک میں آپ کو زیادہ بھوک نہیں لگ رہی؟ حیرت انگیز طور پر اس سروے کا حصہ بننے والے افراد میں سے صرف ساڑھے 4 فیصد نے نفی میں جواب دیا۔ یہ اس لحاظ سے بھی منفرد سروے بن چکا ہے کہ اس میں عوام کی رائے میں پایا جانے والا فرق بہت کم ریکارڈ کیا گیا ہے۔
’’واضح رہے‘‘ کے پلیٹ فارم سے کئے جانے والے رمضان سروے میں پاکستان کے 18 شہروں سے عوام کی رائے لی گئی ہے۔ جبکہ سمندر پار پاکستانیوں سے بھی ان کا تجربہ پوچھا گیا ہے۔ یوں اس سروے میں کُل 3 ہزار 80 افراد نے اظہارِ رائے کیا ہے، جس میں سے 95 فیصد سے زیادہ یعنی 2 ہزار 940 پاکستانیوں نے کہا ہے کہ انہیں رمضان المبارک میں پہلے کی طرح بھوک کا احساس نہیں ہو رہا ہے۔
دوسری جانب سروے میں شامل 3080 میں سے 140 افراد نے کہا ہے کہ انہیں رمضان المبارک میں زیادہ بھوک لگتی ہے۔ ان کیلئے جاری ماہِ رمضان ماضی سے اس طور مختلف ہے کہ اس بار روایتی گہما گہمی نہیں۔ سڑکوں پر زیادہ رش نہیں ہے۔ شاپنگ مالز اور دیگر تفریحی مقامات بند ہیں۔ جبکہ نصف رمضان المبارک تک نماز تراویح کے اجتماعات بھی محدود پیمانے پر ہوئے۔ اسی طرح اجتماعی افطار کا اہتمام بھی کہیں نہیں ہوا۔ البتہ جہاں تک افطار اور رات کے کھانے کا تعلق ہے تو خوراک کی طلب پہلے جیسی ہی ہے۔
یوں سروے کے تحت زیادہ بھوک لگنے والوں کی شرح 4.54 فیصد رہی ہے۔ سروے میں پاکستان کے جن شہروں سے عوام کی رائے طلب کی گئی ہے، ان میں کراچی، لاہور، اسلام آباد، ملتان، پشاور، سرگودھا، مظفر آباد، کوئٹہ، سکھر، لکی مروت، باغ، خضدار، چترال، جہلم، مردان، ایبٹ آباد، گوادر اور شیخوپورہ شامل ہیں۔ جبکہ بیرون ملک سے متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی، برطانیہ کے دارالحکومت لندن اور امریکہ کے شہر کیلی فورنیا سٹی میں سکونت اختیار کئے ہوئے پاکستانی بھی اس سروے کا حصہ بنے ہیں۔
قابل غور امر یہ ہے کہ سروے کا حصہ بننے والے تمام افراد گرم علاقوں کے رہنے والے نہیں ہیں۔ قدرتی طور پر ٹھنڈے علاقے بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ یا ان شہروں کے باسی بھی سروے کا حصہ ہیں، جہاں ان دنوں بارشوں کی وجہ سے موسم خوشگوار ہے۔ یہ وضاحت اس لئے ضروری سمجھی گئی ہے کہ عام طور پر گرم علاقوں کے رہنے والے بھوک کے بجائے پیاس سے زیادہ پریشان ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ بحالت روزہ ہمیں جتنی بھی بھوک پیاس لگ رہی ہو ہم کچھ کھا پی نہیں سکتے۔ لہٰذا یہ سروے روزے کے حوالے سے نہیں۔ بلکہ افطار کے بعد کے وقت کے بارے میں ہے، جب ہمیں کھانے پینے کی کوئی ممانعت نہیں ہوتی۔ اور اس سروے میں 2 ہزار 940 افراد نے کہا ہے کہ انہیں رات کے اوقات میں بھی زیادہ بھوک نہیں لگ رہی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس امر کی بنیادی وجہ لوگوں کا گزر اوقات ہے، جو کورونا وائرس کے سبب خاصا بدل گیا ہے۔