تازہ ترین

خدا نے اس قوم کی حالت اج تک نہیں بدلی نہ ہو خیا ل جس کو آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

dsfdf
  • راجہ فیصل اقبال
  • جولائی 1, 2020
  • 11:43 شام

اقبال کا یہ شعر ہمارے معاشرے میں کے لیے ایک پیغام ہے اگرچہ ہم اس شعر کو صرف جلسے اور جلسوں کی حد تک محدود رکھا ہوا ہے مگر اس شعرکے مفہوم کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے توبہت سارے حقائق عیاں ہوتے ہیں

جن میں ایک پاکستان کا معرض وجود میں آنا ہے ۔ اس بات سے ہم بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان بنانے کے لیے ہمارے آباو اجداد نے بے شمار قربانیاں دیں پھر قائد آعظم محمد علی جناح بہترین قیادت کے نتیجے میں پاکستان ایک آزاد ملک کی حثیت سے دینا کے نقشے پر ابھرا ۔ اگر ہم پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات با آسانی معلوم ہوگی کہ تحریک پاکستان میں ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے اپنا حصہ ڈالا جن میں بوڑھے ، بچے جوانوں ، عورتوں نے قربانیاں دی ۔ قائداعظم امت مسلمہ کو ایک نئی سوچ دی اور اس کو سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سب نے مل کر جدوجہد  کی  اور تب جا کر یہ ملک آزاد ہوا ۔قائداعظم کی بہترین لیڈر شپ بھی تب کاری گر ثابت ہوئی جب  ہرایک نے اپنی سوچ کو بدلا اور یہ طے کر لیا کہ آپ ہمیں ایک آزاد ملک میں سانس لینی ہے اور پھر اس کو ثابت بھی کر دیا ۔

پاکستان کو ایک آزاد  ملک قائم ہوئے تقریبا 72 سال ہوچکے ہیں اور کیا ہم نے کبھی ان باتوں پر غور کیا ہے کہ ان72 سالوں میں ہم نے اس ملک کے لیے کیا کیا ہے ۔ ہم  نے اس ملک کی ترقی کے لیے اپنا کتنا حصہ ڈالا ہے ۔ حکمرانوں کو کچھ دیر کے لیے ہم پس پردہ رکھ دیتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کسی بھی ملک کی ترقی میں ایک بہترین لیڈر شپ کا بہت اہم کردار ہوتا مگر اس ملک میں رہنے والی عوام کا بھی ایک بڑا کردار ہوتا ہے ۔ جس کے بارے میں نہ کسی نے کبھی سوچا اور نہ سوچتا ہو گا ۔

قارئین کرام اب میں یہاں ایک چھوٹی سے مثال دیتا چلوں گا ہم وہ قوم ہیں جو اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ سامنے رکھے ڈبے میں ڈالنے  کے بجائے اس کے پاس رکھ کر چلے جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہم نے اپنا کام کر دیا ۔اس بات سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم اپنے ملک کی ترقی میں کتنا کردار ادا کررہے ہیں اگرچہ یہ بہت ہی  چھوٹی سی بات ہے ۔ اسی طرح اگر آپ کسی پارک یا ہسپتال میں چلے جائیں تو آپ کو جگہ جگہ کندگی کے ڈھیر نظر آئیں گے ۔ حالانکہ کہ حکومت نے ہر جگہ باقاعدہ کوڑا کرکٹ کے لیے ڈسٹ بن رکھیں ہیں مگر کیا مجال ہے کہ کوئی اُن کو استعمال کرنے کی تکلیف کرے  اب آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو کتنی مہذب قوم کہلانے کے لائق ہیں   ۔یہ تو بہت ہی چھوٹی چھوٹی مثالیں ہیں ۔ اب ہم ذرا ان باتوں  کا بغور مطالعہ کریں ۔ ہمیں اپنی تنزلی کے بارے میں خود ہی اندازہ ہو جائے گا ۔ کورونا وائرس بھی اس کی ایک واضح مثال ہے حکومت کے لاکھ اقدامات کے باجود لوگوں نے احتیاطی تدابیر کو اختیار نہیں کیا ۔ جس کے نتیجے میں کورونا کی وبا پاکستان کے اندر خطرناک صورتحال اختیار کر چکی ہے ۔ اور ہر کوئی حکومت کو ہی کوستا نظر آرہا ہے ۔ اگر ہم کچھ عرصہ کے لیے ان حفاظتی تدابیر کو اختیار کرتے تو شاہد آج ہم اس صورتحال سے دوچار نہ ہوتے ۔ اب ہم خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ ملکی ترقی میں ہم کتنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔

پاکستان کی آبادی اس وقت تقریبا 22 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے پاکستان کے نیشنل اسمبلی اور سینٹ کے کی کل ممبران کی تعداد تقریبا 448 کے قریب ہے میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر  22 کروڑ عوام یہ عہد کر لے کہ ہم نے اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا  ہے اور ہم نے کرپشن اور ناانصافی کے خلاف لڑنا ہے تو مجھے بتایا جائے کہ  یہ اسمبلی میں بیٹھے ہوئے   چند سو افراد ہم  عوام پر بھاری کیسے ہو سکتے ہیں ۔  کیا  ایسا کرنا اس لیے مشکل ہے کہ بنیادی طور پر ہم ایسا کرنا ہی نہیں چاہتے  ۔ ہمارے سامنے ظلم ہو رہا گا مگر ہم اُس کے خلاف آواز تک نہیں اٹھائیں گے کیونکہ ہم اپنے آُپ کو کسی مشکل میں  ڈالنا نہیں چاہتے ۔ ہم صرف حکمرانوں پر برستے ہیں اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ملک کی اس صورتحال میں حکمرانوں کا ایک بڑا کردار ہے مگر عوام کا بھی ایک بڑا کردار ہے مگر ہم نے اپنی طرف بھی کھبی نہیں دیکھا

امریکہ نے 1945 میں چاپان کے دو شہروں پر اٹیم بم گرا کر انھیں تہس نہس کر دیا  اور یوں لگتا تھا کہ یہاں دوبارہ زندگی کے کبھی آثار نہیں ہونگے مگر آج چاپان کہاں کھڑا ہے چاپان کی اس ترقی میں سب سے بڑا کردار اس کی عوام کا ہے ۔  کیا انھوں نے اپنے حکمرانوں پر انحصار کیا نہیں انھوں نے خود اپنے ملک کی حالت کو بدلنے کے لیے دن رات کام کیا اور آج چاپان کا شمار دینا کے ترقی یافتہ مما لک میں شمار کیا جاتا ہے ۔

قارئین کرام قوموں میں تبدیلی تب تک نہیں آتی ہے جب تک  قومیں اپنی حالت خود سنوارنے کا نہیں سوچتی ہیں ۔ کوئی بھی قوم اس وقت ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ خود اپنی ترقی کے بارے میں نہیں سوچے گی ۔ ہم  اپنے  نمایندوں کو خود منتخب کرتے ہیں اور پھر اُنھی کو گلہ کرتے ہیں ۔ ہر چپز کا ذمہ دار انھی کو ٹھہرا کر اپنی ذمہ داری سے مبرا ہو جاتے ہیں حلانکہ ایسا نہیں ہونا چائیے ۔ ہمیں یہ بھی تو دیکھنا چائیے کہ ان منتخب نمایندوں کو اس ایوان میں لانے ولا کون ہے۔ اگر ہم تھوڑا سا عقلمندی کا مظاہر کریں تو ہمارا ملک بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے ۔ مگراس  کے لیے ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا ۔

راجہ فیصل اقبال

راجہ فیصل اقبال مظفرآباد آزاد کشمیر E-mail raja.faisal1980@yahoo.com

راجہ فیصل اقبال