قارئین کرام تقریبا 292 دن گزر چکے ہیں کشمیر میں کرمکمل لاک ڈاون ہے ۔ بھارتی فوج نے ظلم کے تمام حربے آزما لیے ہیں نہ کھانے کے لیے کچھ ہے نہ بیماروں کے لیے دوا ۔ عورتوں کی عزت کو تار تار کرنا نوجواں کو شہید کرنا اب بھارتی فوج کے لیے کوئی انہونی بات نہیں ہے ۔ وہ لوگوں کو گاجر مولیوں کی طرح کاٹ رہے ہیں ۔ کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اُن کو اس ظلم بربریت سے روک سکے ۔ کشمیری وہ لوگ ہیں جو29 سال سے ظلم و بربریت کی اس چکی میں پس رہے ہیں ۔ ڈیرھ لاکھ کے قریب لوگوں کو بےدردی سے شہید کیا جا چکا ہے ۔ ہزاروں عورتوں کی عصمت دری کی جا چکی ہے ۔ اُن کو اس قربانی کا کیا یہ صلہ ملا کہ اُن کی قانونی حیثت کو ہی ختم کر اُنھیں گھروں میں محصور کر دیا گیا ہے ۔ مگر وہ اس بے سروسامانی کی حالت میں بھی بھارتی مظالم کے اگے سینہ تان کر کھڑے ہیں ۔
ہم تو دو مہینے کا لاک ڈوان برداش نہیں کر سکے جس میں صرف ہمیں اپنے گھروں میں رہنا تھا ہمارے پاس ہر سہولت میسر تھی مگر پھر بھی ہم نبھا نہ کر سکے اس بات سے آپ خود اندازہ کر لیں کشمیریوں کے پاس نہ کھانا پینا اُن کو دینا کی ہر سہولت سے محروم کر کے گھروں میں محصور کر دیا گیا ہے جو کوئی باہر نکلتا ہے بھارتی افواج کی گولیوں کا نشان بن جاتا ہے ۔ تو پھر اُن کی کیا حالت ہو گی جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو اُس کو دوا تک نہیں ملتی ایک ماں کا بیٹا اُس کے سامنے تڑپ کر جان دے دیتا ہے ۔ تو اُس ماں پر کیا گزرتی ہوگی اس کا انداز وہی لگا سکتا جس پر گزرتی ہے ۔کشمیری وہ لوگ ہیں جو پاکستان کے جھنڈے میں دفن ہونا اپنے لیے باعث فخر کا سمجھتے ہیں ۔
وہ انڈین آرمی کی بندقوں کے سامنے پاکستانی پرچم لہرا کر اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہیں ۔ ہمارا بھی کچھ فرض بنتا ہے ان ظلم کی چکی میں پستے ہوئے اپنی کشمیریماوں بہنوں بیٹوں اور بھائیوں کے لیے اپنا فرض ادا کریں ۔ کشمیری مائیں بہنیں بیٹاں ہر روز اپنے دروازے پر ہونے والی دستک پر کسی قاسم کی منتظر ہوتی ہیں ۔ کہ شاہد کوئی قاسم اُنھیں اس ظلم کی چکی سے نجات دلانے آئے گا ۔مگر وہ شاہد نہیں جانتی کہ وہ ایک ایسے قاسم کا انتظار کر رہی ہیں جس نے ایک کورونا کے سامنے ہتھیار ڈال کر اپنے ماوں بہنوں اور بیٹوں کو ظالموں کے رحم کرم پر چھوڑ دیا ہے۔اب ہم چایئنہ کے کندھوں پر بندوق رکھ کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ چایئنہ نے ڈنکے کی چوٹ پر اپنے متنازعہ علاقے کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے ۔
حالانکہ وہاں کوئی آبادی نہیں تھی نہ کوئی ظلم تھا بس خالی علاقہ تھا ۔ جو چایئنہ کی ملکیت تھا ۔کشمیر کی آبادی ٪95 مسلم ہے ۔ اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق کشمیر کا فیصلہ استصواب رائے سے کیا جائے گا ۔ مگر اقوام متحدہ نے اپنی انکھیں مکمل بند کرلیں ہیں کیونکہ اقوام متحدہ امریکہ کے کنٹرول میں ہے اور امریکہ بھارت کے خلاف کھبی نہیں جائے گا یہ بات ہم بخوبی سمجھتے بھی ہیں اور جانتے بھی ۔ مگر پھر بھی ہم اُن کی طرف اس لگائے بیھٹے ۔ کشمیر کا فیصلہ اگر کرنا ہے تو ہم نے خود کرنا ہے ۔ ورنہ پھر دوسرا راستہ یہ کہ اُن کو بھارتی درندوں کے رحم کرم پر چھوڑ دیا جائے ۔
اور اُن کو یہ بھی بتا دیا جائے کہ ہم تمارے لیے کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ ہم کسی کے لیے اپنے آپ کو مشکل میں نہیں ڈال سکتے تاکہ وہ لوگ جو اُمیدیں ہم سے لگائے بیھٹے ہیں اُن کے سحر سے نکل سکیں ۔ اے وقت کے قاسم تیری ضرورت اب ان پڑی ہےبنت ہوا کی بیٹی دن رات لوٹ رہی ہے کٹ رہے ہیں وادی کے جوان یکے بعد دیگرہر گھر ہر گلی خون سے بھری پڑی ہے مائیں تلاش کر رہی ہیں اپنے لخت جگروں کوناجانے کہاں لاش خون سے بھری پڑی ہے بجھ جاتا ہے ہر روز کسی نہ کسی گھر کا چراغہر کوچہ ہر گلی داستاں غم سُنا رہی ہے ناجانے کب ختم ہو گا سلسلہ یہ ظلم و بربریت کا ہر طرف سے بس اک سدا آ رہی ہے لوٹ کر آجا اے وقت کے قاسم توہی اب شاہد تیری ضروت ہی آب آن پڑی ہے