ایک بھائی دوسرے بھائی کا گلہ کاٹ رہا ہے کوئی مال کی خاطر کوئی عورت کی خاطر ۔ حتی کی بعض اوقات تو اولاد نے جائیداد کے لالچ میں اپنے والدین کو بھی بے دخل کردیا یا قتل کردیا ۔ چھوٹی چھٹی بچیوں کے ریپ ہوتے ہیں وہ بھی ایسے رشتوں کے ہاتھوں جو والدین کا درجہ رکھتے ہیں ۔ ہر کوئی دینا کے چکروں میں پڑا ہوا ہے اُسے کوئی فکر نہیں کہ وہ جہاں سے آیا تھا وہی لوٹ کر جانا ہے ۔ بس ہمارا ہر وقت ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے ہمیں روزگار چائے پیسے چائے کھانے کے لیے سستی چیز چائے رہنے کے لیے سکون چائے ۔ سفر کرنے لیے سہولت چائے ۔
اگر ہمارے ساتھ ظلم ہو جائے تو اُس کے لیے انصاف چائے ۔اگر آج سے تقریبا 30 سال پیجھے کے ادوار پر نظر دوڑائی جائے تو ۔ یہ بات باآسانی معلوم پڑے گی کہ اُس وقت ہمارے معاشرے میں امن تھا پیار تھا نہ کوئی لالچ رشتوں میں تقدس تھا اُستاد شاگر کا احترام تھا ۔ والدین اگر کوئی غلط فیصلہ بھی لے لیں تو اولاد کا فرض تھا کہ اُس کی تعمیل کرنا ۔ عورت اگر رات کوبھی باہر نکلے تو کوئی خوف نہ تھا ۔ اُسے یہ یقین ہوتا تھا کہ کوئی نہ کوئی اُسے اُس کی منزل تک پہنچا دے گا ۔ معاشرے میں مکمل سکون تھا ۔ نہ کوئی فتنہ تھا نہ کوئی فساد تھا ۔
اگر گاوں کے ایک گھر میں کوئی فوتگی ہو جائے تو پورا گاوں اُس کا شریک غم ہوتا تھا ۔ لوگ سوگ میں کھانا نہیں کھاتے تھے مگر آج تو جنازہ ابھی گھر میں ہوتا ہے لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں ایک گھر میں ماتم ہوتا ہے ساتھ والے گھر میں شادیانے بج رہے ہوتے ہیں ۔ گھر میں ایک بیمار ہو جاتا تھا تو پورے کا پورا گاوں تیمارداری کے لیے اُمنڈ آتا تھا ۔اجکل تو سامنے کوئی مر رہا ہو تو کوئی اٹھانے کی زحمت نہیں کرتا ۔
ترقی کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو اس وقت ہم دینا کے جدید ترین دور سے گزر رہے ہیں ۔ ہمارے پاس دینا ہر سہولت موجود ہے ۔ مگر ان سب کے باجود بھی ہم اخلاقی اور معاشرتی اعتبار سے ایک بدترین دور سے گزر رہے ہیں ۔
کیا ہم نے کبھی ان باتوں پر غور کیا ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باجود بھی ہمارا معاشرہ کیوں پستی کا شکار ہے اس کی کیا وجوہات ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا ہمارے مذہب اسلام سے دوری ہے ۔
کیونکہ اسلام ایک مکمل جامعہ ضابطہ حیات ہے مگر ہم اس سے دور ہیں ۔ ہمارا بچہ جب اپنے ہوش سنبھالتا ہے تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ دیناوی تعلیم میں کسی سے پیچھے نہ رہے ۔ ہم اُسے جدید انگش سکول میں داخل کرواتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض پورا کر دیا جب کہ ایک مسلمان ہونےناطے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے بچے کی تربیت اسلامی طریقہ کار سے کریں ۔ جب ہم اپنی نسلوں کی بنیاد اسلام طرز زندگی پر رکھیں گے تو ہمارا معاشرہ بھی اسلامی طرز کا ہو گا ۔
جب معاشرہ اسلامی طزز کا ہوگا انصاف ہو گا امن کا بول بالا ہوگا ۔ پیار ہوگا ۔ایک پرسکون معاشرہ ہو گا ۔ اس وقت ہمیں ایک اسلامی معاشرہ قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے ہم ہر حکومت کے اگے روٹی کپڑا مکان اور منگائی کا ہمطالبہ کرتے ہیں ۔ روٹی بھی مل جاتی ہے مکان بھی مل جاتا ہے مگر جب تک سکون نہیں ملتا اُس وقت یہ سب کچھ بیکار ہے ۔ ہم سب کو مل ایک اسلامی فلاحی ریاست کے اقدمات کرنے چائے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ایک پرسکون زندگی گزار سکیں