اور آخر کار وہ کسی بڑے واقعے کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں ۔ ہمارا مذہب اور ہمارا معاشرہ بھی ہمیں یہی سبق دیتا ہے کہ کسی بھی بات کو آگے پھیلانے سے پہلے پوری تحقیق کر لو ۔مگر ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ہے کہ ہم کسی بھی بات کی تحقیق کرنے کے بجائے اُسے اپنے دل میں نفرت سے پروان چڑھاتے ہیں ہیں ۔ جو کہ اکثر معاشرے کے اندر تصادم کا باعث بنتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں مشترکہ خاندان کا راوج ہے (جوائنٹ فیملی سسٹم)جس میں اس بات کا زیادہ عنصر پایا جاتا ہے ۔ اور اکثر لڑائیاں غلط فہمی کی بنیاد پر ہوتی ہیں جس کی وجہ بعض اوقات رشتے بھی ٹوٹ جاتے ہیں ۔
ان موضوع پر کئی ڈرامے بھی بنائے جا چکے ہیں مگر ہم بجائے اُن سے سبق حاصل کرنے کے وہی طرز زندگی اپنائے جا رہے ہیں جو معاشرے کے اندر مزید انتشار کا باعث بن رہا ہے ۔
اگرچہ اس کی وجہ اسلام سے دوری بھی ہے ۔بعض اوقات بظاہر ایسا نہیں ہوتا جو کہ نظر آرہا ہوتا ہے ۔ بس اس کے لیے ہمیں کچھ تھوڑی بہت تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مگر ہم میں سے بہت کم ہی اس بات کو گوارہ کرتے ہیں ۔ وہ اُسی بات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرتے ہیں جو جو اُنھیں نظر آرہا ہوتا ہے ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہونا چائے ۔ معاشرے کے اندر اعتدال پیدا کرنے کے لیے غلط فہمی کا تدراک ضروری ہے ۔ خصوصا مشرکہ خاندان رواج میں اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔
ایک سبق آموز تمثیل (Story) پڑھئے: بہو اپنے سُسر کے کمرے کے قریب سے گزری تو اس کے کانوں میں ساس کی آواز پڑی کہ اب مجھ سے اس لڑکی کے نخرے برداشت نہیں ہوتے،یہ سُن کر وہ چونک گئی اور وہیں رُک گئی، اس کی ساس اپنے شوہر سے کہہ رہی تھی، جب دیکھو اس لڑکی نے نئی ٹینشن کھڑی کی ہوتی ہے،
سمجھانے پر بھی نہیں سمجھتی، نہ ساس کو کچھ سمجھتی ہے نہ سُسر کی عزت کرتی ہے اور شوہر کو تو اپنا نوکرسمجھتی ہے، شام کو بیٹا گھر پر آتا ہے تو اس سے فائنل بات کرتی ہوں۔ یہ سُن کر بہو کے تن بدن میں تو گویا آگ لگ گئی کہ میں نے ان کے سامنے کون سے نخرے کئے ہیں! کب گھر میں ٹینشن کھڑی کی ہے! ساس سُسر کی خدمت سے کب انکار کیا ہے! شوہر کی عزت اور وقار میں کب کمی کی ہے؟ پھر بھی ان لوگوں کے میرے بارے میں اتنے بُرے تأثرات ہیں کہ اب مجھے گھر سے نکالنے کی سوچ رہے ہیں، اس سے پہلے کہ یہ شام کو میرے شوہر سے بات کریں اور مجھے دھکے دے کر گھر سے نکالیں میں خود ہی اپنے میکے چلی جاتی ہوں۔
یہ سوچنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آکر خاموشی سے اپنے کپڑے وغیرہ سوٹ کیس میں رکھنے لگی، ابھی پیکنگ سے فارغ ہوئی ہی تھی کہ ساس نے آواز دے کر بُلا لیا اور اپنے پاس بِٹھا کر کہنے لگی: بہو! تمہاری نند (یعنی میری بیٹی) کی اپنے سُسرال والوں سے نہیں بنتی، میں اپنی معلومات اور تجربے کی بنیاد پر سمجھتی ہوں کہ قصور میری بیٹی کا ہے، ہم نے اسے بہت سمجھایا ہے، آج شام کو بیٹا آتا ہے تو اس سے کہوں گی کہ کچھ دنوں کے لئے اُسے یہاں لے آئے، میری تم سے درخواست ہے کہ تم اس کی ہم عمر بھی ہو اور ہمارے گھر کی پیاری اور مثالی بہو بھی ہو،
اگر تم اسے سمجھاؤ گی کہ بہو کو گھر میں کس طرح رہنا چاہئے تو مجھے امید ہے وہ خود کو بہتر کرلے گی۔ یہ سُن کر بہو نے ہاں میں سر ہلایا اور دل ہی دل میں شرمندہ ہونے لگی کہ میری ساس میرے بارے میں کیسے اچھے جذبات رکھتی ہے لیکن افسوس! جو باتیں انہوں نے اپنی سگی بیٹی کے لئے کی تھیں انہیں میں نے غلط فہمی کی وجہ سے اپنے اوپر لے لیا، پھر اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ پیکنگ کی بات کمرے تک ہی رہی ورنہ بات بڑھ سکتی تھی اورجھگڑا ہوسکتا تھا۔
حالانکہ شاہد اس کہانی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو مگر ہمارے معاشرے کے اندر اس طرح کے کئی واقعات ررنما ہو چکے ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی غلط فہمیوں کی وجہ سے برسوں کے رشتوں کو ٹھوکر مار دی جاتی اور بعد میں پچھتانا پڑتا ہے ۔
اپنی قیمتی آرا سے ضرور آگاہ کیجے گا