ایسے حالات میں حکمران ہوں یا صاحبان اختیار، بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے باز نہیں رہتے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران قوم کو کرپٹ لوگوں سے نجات دلانے کا وعدہ کیا تھا۔ کرپشن کے خاتمے، آئی ایم ایف سے نجات اور ملک کا فرسودہ نظام تبدیل کرنے کے نعرے پر ہی انہوں نے 2018ء کے عام انتخابات میں ووٹ حاصل کرکے حکومت بنائی تھی۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران عمران خان پاکستان میں روزانہ 11 سو ارب روپے کی کرپشن کا الزام لگاتے تھے لیکن ان کی حکومت آنے کے بعد سے کیا ہو رہا ہے اور اگر انہوں نے 11 سو ارب روپے روزانہ کی کرپشن روک دی ہے تو اب تک پاکستان کو تمام قرضوں سے جان چھوٹنے اور ترقی کے لیے کسی سے قرضے نہ لینے کا اعلان کر دینا چاہیے۔
لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ بلکہ کورونا کے 1240 ارب روپے کے اِدھر ا ُدھر یا بے حساب خرچ کا حساب غائب ہے۔ اس پر مزید کام سامنے آگیا ہے اور وہ 20-2019ء میں 550 ارب روپے کی مالی بے ضابطگی کا الزام ہے یا انکشاف ہے۔ آڈیٹر جنرل پاکستان نے پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کو ایک رپورٹ بھجوا ئی ہے۔ اس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے سول اخراجات میں 268 ارب 87 کروڑ اور پبلک سیکٹر میں 135 ارب 75 کروڑ کی مالی بے ضابطگی سامنے آئی ہے جبکہ ایک ارب 30 کروڑ روپے کی خورد برد بھی ہوئی ہے۔حالانکہ مالی بے ضابطگی خود بتاتی ہے کہ یہ کسی کرپشن کے لیے کی گئی ہے۔
آڈیٹر جنرل نے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی سفارش بھی کی ہے۔یہ رپورٹ تو سامنے آگئی لیکن وزیراعظم نے پیٹرولیم بحران کی تحقیق کی رپورٹ دبا دی۔ کبھی یہ بھی سامنے آئے گی اسی طرح چینی اور گندم مافیا کی کرپشن بھی بعد میں سامنے آئے گی یا لائی جائے گی۔ گویا اب عمران خان اور پی ٹی آئی بھی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ہم پلہ ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ بھی کرپشن کے ملزم ہیں اور پی ٹی آئی بھی تو پھر تبدیلی کہاں گئی۔
پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے سے قبل ملک میں دو کرپٹ پارٹیاں تھیں، عمران کان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا اور تبدیلی آگئی۔ دو کرپٹ پارٹیاں ہار گئیں۔ تبدیلی یہ آئی کہ اب تین کرپٹ پارٹیں ہو گئی ہیں۔ عوام اب بھی نہ سمجھیں تو اسی کھیل میں الجھے رہیں گے۔ اور یہ کھیل شروع بھی ہو گیا ہے، پوری حکومت چھ نشستوں پر کھڑی ہے۔
کبھی چودھری پرویز الٰہی کی منتیں کرنا پڑتی ہیں تو کبھی ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کی اب جہانگیر ترین گروپ کے نام پر سرگرمیاں شروع ہو گئی ہیں۔ انہوں نے پہلے کرپٹ لوگوں کو عمران کی جھولی میں ڈالا تھا اب پھر لوگوں کو جمع کر رہے ہیں۔ اور یہ بھی کرپٹ ہی ہوں گے ورنہ کسی کی جھولی میں نہ گرتے۔
کسی بھی ملک میں مسائل کی موجودگی دراصل حکمران طبقے کی غیر ذمہ داری، غفلت اور نا اہلی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ برسر اقتدار طبقہ د یانتدار ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرے کے دیگر طبقات میں بد عنوانی کا عنصر پروان چڑھ سکے۔ اس کے مقابلے میں حکمران بد دیانت اور عوام بد عنوانی کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے ہوں تو معاشرہ تباہی کے دہانے تک پہنچ جاتا ہے۔
جس ملک اور معاشرے میں اس قسم کی انار کی چیناجھپٹی اور سینہ زوری کا رواج ہو وہاں کرپشن کو اپنے پنجے گاڑنے میں بڑی سازگار فضا میسر آجاتی ہے۔پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ کرپشن کا اُردو میں مفہوم بد عنوانی، بدکاری، بدعملی، بد اخلاقی اور بگاڑ کا ہے۔ عربی میں اس کا مفہوم لفظ فساد سے ممکن ہے۔
کرپشن سے معاشرے میں بد عملی، بد اخلاقی، بد عنوانی پھیلتی ہے جس سے معاشرے میں فساد پھیلتا ہے۔ قائداعظم نے 11 اگست 1947ء کو فرمایا تھا کہ سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اور رشوت ہے اسمبلی کو اس کے خاتمے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔
موجودہ صورتحال میں ملک میں معاشی، سیاسی، انتخابی اور اخلاقی کرپشن کا ناسور قومی سلامتی کیلئے خطرناک شکل اختیار کر گیا ہے۔ بے انتہا غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور بد امنی کی جڑ موجودہ کرپٹ سسٹم ہے جس کی وجہ سے بے انتہا معدنیات، بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال جفا کش اور محنتی قوم کے باوجود غریب ، غریب تر اور امیر، امیر ہو رہا ہے۔
ئین پاکستان میں عام شہری کو عزت کی روٹی، تعلیم، علاج اور رہائش دینے کی ضمانت دی گئی ہے مگر کرپٹ حکومتوں نے ان بنیادی حقوق سے شہریوں کو محروم رکھا ہوا ہے۔ تحریک انصاف حکومت کے دور میںمہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ بے روزگاری، غربت، معاشی بد حالی روز افزوں بڑھتی جار ہی ہے جس کی وجہ سے مائیں اپنے شیر خواروں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ خودکشی کے واقعات کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
غرض حکومت کے ہر شعبہ اور زندگی کے ہر میدان میں کرپشن، بد عنوانی میں بے تحاشا اضافہ ہی ہوا ہے۔ اگر احتساب کا نظام، انصاف کا نظام درست کام کر رہا ہو تو پاکستان میں یقین کریں کوئی بحران پیدا نہ ہو۔وہی ملک ترقی کر سکتا ہے جہاں عدل و انصاف بکتا نہ ہو، ذمہ داروں کو کڑی سزا دی جائے۔
ہمارے ہاں عدل کے لیے مثال تو حضرت عمر فاروق کی دی جاتی ہے لیکن صرف مثال دی جاتی عمل سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ عدل و انصاف کے ذریعے ہی لوگوں کے درمیان حقوق و فرائض کا تعین ہوتا ہے اور اپنے فرائض پورے نہ کرنے پر انہیں سزا دی جاتی ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ ہم نے کتاب اورمیزان کو نازل کیا تاکہ لوگوں کے درمیان انصاف کیا جا سکے۔
اسلام کے نظام انصاف میں تاریخوں کے دینے کا کوئی وجود نہیں ہے فیصلہ فوری طور پر کیا جاتا تھا۔ اسلام میں انصاف سہل الحصول اور قاضی، جج، وکیل و تھانہ کچہری جانبدار نہ ہو اس میں رشوت اقرباءپروری نہ ہو۔ یہ رشوت کا ناسور بھی انصاف و عدل کے نظام کے کمزور ہونے کی وجہ سے ہی معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کرتا ہے۔ معاشرے کو ملک کو کامیابی سے چلانے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں قانون ہو اور اس قانون پر سختی سے عمل ہو۔
اسلامی نظام و عدل و امیر و غریب ، خاص و عام، شاہ گدا، قاضی اور بادشاہ، خلیفہ یاوزیراعظم و صدر کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ انصاف پر ہی دین و دنیا کی فلاح کا دارومدار ہے۔ بغیر عدل کے کسی بھی معاشرے کی ترقی، فلاح، کامیابی، ناممکن ہے۔ عدل یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کریں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکامات کے مطابق زندگی گزاریں۔
میں سمجھتا ہوں کہ وطن عزیز میں بد عنوانی کا زہر روز مرہ زندگی تک محدود نہیں رہا بلکہ قوم کی اجتماعی سوچ بد دیانتی کا شکار ہو چکی ہے۔ دوسرے الفاظ میں معاشرے کے ضمیر اور اجتماعی دانش میں کرپشن کا عنصر جگہ بنا چکا ہے جو انتہائی تشویشناک ہے۔ ایسے حالات میں جتنی بھی کوششیںکر لی جائیں بد عنوانی کو اجتماعی سوچ میں انقلابی تبدیلی کے بغیرکبھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔
اس مقصدکے لیے تبدیلی کا آغاز عام آدمی سے نہیں برسر اقتدار طبقات سے ہونا چاہیے۔ ہمارے حکمران جب تک قانون کی حاکمیت کو عملی طور پر تسلیم کرتے ہوئے بد عنوانی کے خلاف اقدامات کو اپنی ذات اور اپنے اعزاءاقربا سے شروع نہیں کریں گے معاشرے کو اس ناسور سے نہیں بچایاجا سکتا۔
اس کے ساتھ علم و آگہی، تعلیمی میدان میں اسلامی نظریات کی بنیاد پر ترقی، جمہوری اقدار کے فروغ، ذرائع ابلاغ، مذہبی مفکرین کی رہنمائی کو بنیاد بنا کر سماجی شعور کی تطہیر کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگربد عنوانی کا سونامی ہمارے بچے کھچے سماجی ڈھانچے کو بھی تباہ و برباد کر ڈالے گا۔
تحریر: حافظ محمد صالح