وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب نے کئی بار قوم سے برائے راست مخاطب ہوئے اور قوم کو اعتماد میں لینے کی کوشش کرتے رہے اور کورونا کے حوالے سےاپنائی جانے والی حکمت عملی سے قوم کو اگاہ کرتےایسا محسوس ہو رہا تھا کہ حکومت نے کورونا سے نمٹنے کے لیے پوری تیاری کر رہی ہے ۔شروع میں لاک ڈاون کی پالیسی کو اپنانے پر زور دیا گیا اگرچہ یہ اُس وقت کا ایک اہم تقاضا تھا ۔مگر یہ صرف وقتی اقدام تھا ۔ حکومت کے پاس کافی وقت درکار تھا جس میں ایک واضح حکمت عملی اپنائی جا سکتی تھی جو کہ کورونا سے نمٹنے کے لیے کاری گر ثابت ہو سکتی تھی ۔اگرچہ حکومت وقت کے وزیروں اور مشیروں نے اپنے اقدامات کی دن رات تعریفیں کرتے نہ تھکتے تھے یوں لگ رہا تھا کہ حکومت کورونا سے نمٹنے کےلیے تمام اقدامات کر چکی ہے۔
مگر شاہد اب محسوس ہو رہا ہے کہ وہ سب دعوے کھوکھلے تھے پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد کا ایک نہ روکنے والا سلسلہ چل نکلا ہے ۔مریضوں کے لیے سہولیات کا فقدان ہے ۔قرنطینہ مریضوں کے لیے کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں ہے جس کی وجہ سے لوگ وہاں جانے سے گھبراتے ہیں ۔اگر کسی کو علامات ظاہر ہوں بھی تو وہ ان قرنطینہ سنڑوں کی حالت کو دیکھ اپنے آپ کو چھپا لیتا ہے جس کی وجہ سے رسک مزید بڑھ جاتا ہے ۔اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو پھر دو مہینے کا لاک ڈاون جس میں لوگوں شدید کرب میں ڈالا ملکی معشیت کوتباہ کیا لاکھوں لوگوں کو بےروزگار کیا کئی گھرانوں کے چولہوں کو بند کر کے خود کشی پر مجبور کیا بے معنی نظر آتا ہے صورتحال دن بدن بگڑتی جا رہی ہے مگر ابھی تک کوئی واضع پالیسی سامنے نہیں ہاں ایک پا لیسی ضرور اپنائی گئی ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو. مود الزام ٹھہراتے نظر آتے ہیں ۔اگر یہی سب کرنا ہے تو پھر کیسا لاک ڈاون پھر کیوں مساجد پر پابندی سب کچھ کھول دیا جائے تاکہ غریب اپنی روزی روٹی کما سکے باقی جو ہو گا منظور خدا ہو گا ۔