عام لوگ اتحاد کے چیئرمین جسٹس (ر) وجیہ الدین نے کہا ہے کہ بھارت کے ناپاک عزائم خاک میں ملانے کیلئے طویل مدتی اسٹریٹجی اپنانا ہوگی۔امریکی بین الاقوامی مذہبی آزادی کمیشن نے بھارت کو مذہبی تشویشناک ملک قرار دے دیا ہے۔ مگر اس سے کیا ہوتا ہے۔ کشمیر تو جل رہا ہے۔ مسلمان بھی ہند کے طول و عرض میں کورونا وائرس پھیلانے کے نام نہاد ذمہ دار ٹھہرے ہیں۔ کیا خوراک اور کیا دوا دارو، مسلمان خواہ کشمیر میں ہوں یا بھارت کے کسی اور علاقے میں، ان کی پہنچ سے باہر ہیں۔
بھارتی فوج کشمیریوں کے گھروں میں گھس کر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کر رہی ہے۔ برہان وانی اور ریاض نائیکو جیسے ناکردہ گناہ لوگ جن کا جرم صرف اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرنا ہے، چُن چُن کر شہید کئے جا رہے ہیں۔
دوسری طرف چوری اوپر سے سینہ زوری کے مترادف نریندر مودی جب پہلی مرتبہ بنگلہ دیش پہنچے تو بنگلہ دیش کو پاکستان سے الگ کرانے کا اعتراف کیا۔ اب ان کی توجہ بلوچستان کی طرف ہے۔ سابق بھارتی فوجی و دیگر مستقل بلوچستان کی نام نہاد آزادی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ ان کے مطابق بلوچستان کے سرداروں سے وہ روزانہ کی بنیاد پر رابطے میں ہیں۔
پاکستان کے سپہ سالار ابھی حال میں آزاد کشمیر اور بلوچستان کا دورہ کرچکے ہیں۔ کشمیر میں تو بھارت نے ہی باڑ لگا دی تھی۔ اب جہاں تک افغانستان اور ایران کا تعلق ہے تو تخریب کاری سے بچنے کیلئے اسی طرح کی باڑ وہاں پاکستان لگا رہا ہے۔ ان حالات میں پاکستانی عوام مُصر ہیں کہ اس بار جنگ مظفرآباد کے گرد و نواح کے بجائے سرینگر اور اس کے گرد و نواح میں لڑی جانی چاہئے۔
جنگ کسی بھی صورتحال میں آخری حربہ ہوا کرتی ہے اور وہ بھی ایسی جنگ کہ جو دو ایٹمی قوتوں کے درمیان ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ برطانیہ وغیرہ میں بسنے والے خوشحال کشمیریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مظلوم کشمیری بھائی بہنوں کی مالی امداد کا بیڑا اٹھائیں اور انہیں اس طرح کے ہتھیار مہیا کریں جن کے دور رس نتائج حاصل ہوسکیں۔ جیسے سوویٹ یونین کیخلاف اسٹنگر میزائل کا کردار رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیریوں اور بھارت میں اقلیتی مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کی اولیت ہونی چاہئے۔ پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک میں جتنے بھی فلاحی ادارے ہیں جو کشمیریوں اور دیگر ہمدردوں کے زیر اثر ہیں، انہیں کشمیریوں کو خصوصی اور بھارتی مسلمانوں کو عمومی طور پر بہترین تعلیم کے وسائل مہیا کرنے چاہئیں۔ کیونکہ قابلیت اور حسن کارکردگی کا مقابلہ خام ہتھیاروں سے نہیں ہوسکتا۔ یہ طویل مدتی حکمت عملی ہونی چاہئے۔
اگر تو بفرض محال بھارت پاکستان پر ایک اور جنگ تھونپ دیتا ہے تو ہمیں پتا ہے کہ بھارت کا کشمیر کیلئے زمینی راستہ کہاں سے ہوکر گزرتا ہے اور اسے کاٹنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ اور ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ جموں کی سکھ آبادی نا صرف پنجاب بلکہ جموں میں بھی خالصتان قائم کرنا چاہتی ہے۔ اس طرح اگر ہم پر جنگ تھونپ دی جائے تو فوراً سے بیشتر جموں و مشرقی پنجاب کو آزاد سکھ ریاست تسلیم کرلینا چاہئے۔ دوسری طرف لداخ کو چین کے ساتھ بات چیت کرکے چین کی سپردگی میں دے دینا چاہئے۔
ہماری جنگ اور ہمارا مقصد صرف وادیِ کشمیر ہونا چاہئے۔ اس طرح کی حکمت عملی کے ذریعے کشمیر کی آزادی سہل ہوسکتی ہے۔ خصوصاً اس وقت جب کشمیری بھارتی فوج کے اوپر پلے بیٹھے ہیں۔ لیکن بہر صورت جنگ آخری حربہ ہوتی ہے۔ اس سے پہلے طویل مدتی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کی تعلیم تربیت اور ان کو اس نہج پر پہنچانا کہ وہ بھارتی ہندو کا مقابلہ کرسکیں۔ یہ وہ حکمت عملی ہے جس پر عمل کرکے ہم کشمیر کو نا صرف آزاد کرا پائیں گے بلکہ بھارت کو بھی منہ کی کھانا پڑے گی۔