اور ساتھ میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے ہے اُن کے ساتھ گارڈز بھی موجود ہیں ۔ اور وہ شخص بھی موجود ہے جو عظمیٰ خان کے ساتھ اُس وقت اُس گھر میں موجود تھا ۔ ملک ریاض صاحب کی بیٹی اُس شخص کو عثمان کے نام سے پکارتی ہے ۔ جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ملک ریاض صاحب کا داماد ہے ۔
اگر قانون کے تنا ظر میں دیکھا جائے تو کسی کو تشدد کا نشانہ بنانا قانونی جرم اور اُس کی سزا ہے ۔ مگر اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو ہرعورت کو حق ہے کہ وہ اپنے سہاگ کی حفاظت کرے اگرچہ مرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسری شادی کرے مگر اُس کے لیے اُسے جائز طریقہ اپنانا جائے۔
عظمی خان پاکستان کی ایک معروف ایکٹریس ہیں وہ لاتعداد پاکستانی ڈراموں اور فلموں میں بھی کام کر چکی ہیں ۔ ان میں کئی ڈرامے ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہ معاشرے کی اصلاحی پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے بنائے جاتے ہیں ۔ جب آپ کسی دوسرے کو درس دے رہے ہوتے ہیں تو اُس سے پہلے آپ کو خود اُن باتوں پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے ۔
اسی طرح ہمارے ایکٹرز ہمارے معاشرے کا آئینہ ہوتے ہیں کو بھی اپنے آپ کو بالکل اُسی طرح ڈھالنا ضروری ہوتا ہے جس کا سبق وہ معاشرے کو دے رہے ہوتے ہیں ۔ تبہی جاکر معاشرے کے اندر اعتدال پیدا ہو سکتا ہے ۔
اگر اس ویڈیو کو دیکھا جائے اور ملک ریاض صاحب کی بیٹی کے اقدام کو دیکھا جائے تو وہ کسی حد تک ٹھیک بھی ہے کیونکہ کوئی بھی عورت یہ کبھی بھی برداش نہیں کر سکتی کہ اُس کا سہاگ کسی دوسری عورت کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کرے ۔ مگر یہاں ایک چھوٹی سے ناانصافی یہ کی گئی ہے کہ ملک ریاض صاحب کی بیٹی نے صرف عظمیٰ خان کو ہی اپنے تشدد کا نشانہ بنایا ہے حالانکہ اُن چائیے تھا کہ اگر اُن کا خاوند بھی شریک جرم تھا تو اُسے بھی سزا ملنی چائیے تھی ۔
عظمی خان ایک معروف ایکٹریس ہیں میرے خیال میں اُن کا ایک غیر شخص کے ساتھ موجودگی کوئی اچھا پیغام نہیں دیتی۔ اب یہ قیاس آرائی کرنا کہ وہ وہاں کس ارادے سے ایک ساتھ مقیم تھےممکن نہیں ہے ۔ مگر یہ کوئی اچھی بات بھی نہیں ہے ۔ اگر اس بات کا عظمیٰ خان کے پاس کوئی جواز ہے تو وہ میڈیا پر آکر اس کو پیش کریں ورنہ یہ ساری انڈسٹری پر ایک سوالیہ نشان ہو گا اور عوام کا اس پر کوئی اچھا تاثر نہیں جائے گا ۔ کیونکہ ہماری عوام ایکٹرز کو بے پناہ عزت دیتی ہے ۔ معاشرے کے اندر ایک ایکٹر کا کردار بےلکل ویسا ہی ہونا چائے جیسا کہ ڈراموں میں ہوتا ہے ۔ کیونکہ ہمارے ڈرامے ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں ۔ جب سبق دینے والے ہی بدکردار ہونگے تو پھر معاشرہ کیا سبق لے گا ۔
کچھ لوگ ملک ریاض صاحب کو اس معاملے میں گھیسٹ رہے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہونا چائے ۔ اگرچہ اُن کی بیٹی نے یہ اقدام کیا مگر اس میں یہ بھی تو دیکھا جائے کہ آخر اُس اقدام کے پیچھے محرکات کیا تھے ۔ میرے خیال میں شاہد اگر کوئی بھی عورت ہوتی اس صورتحال میں اُس کا وہی رویہ ہوتا جو کہ ملک ریاض صاحب کی بیٹی کا تھا ۔ کچھ لوگ اس کو سیاسی ایشو کے طور پر استعمال کرنا چاہ رہے ہیں جو ہمارے معاشرے کا ہمیشہ سے المیہ رہا ہے ۔ حالانکہ اس ایشو پر سیاست نہیں ہونی چائے کیونکہ اس میں کسی کی عزت کا سوال ہوتا ہے ۔ کچھ لوگ یہ تصور کر رہے ہونگے کہ شاہد میں ملک ریاض صاحب کی بیٹٰی کی طرف دار کر رہا ہوں ایسا ہر گزنہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک ریاض صاحب کا شمار اس وقت پاکستان کے طاقتور ترین لوگوں میں ہوتا ہے مگر دوسری طرف حقائق کو بھی مد نظر رکھنا چائیے ۔ ہمارے معاشرے کے اندر ہمیشہ سے ایک ہی المیہ رہا ہے کہ ہمیشہ طاقتور ہی غلط ہوتا ہے اگرچہ بہت سارے کیسزز میں ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے مگرپھر بھی کبھی کبھی حقائق کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔
اب اس معاملے میں اگر اصل محرکات پر نظر ڈالی جائے تو شاہد غلطی عظمیٰ خان کی بھی ہے جن کی موجودگی ایک غیر مرد کے گھر میں پائی گئی ۔
۔ میں اس بحث میں نہیں پڑوں گا کہ اُن کسی غیر کے گھر میں موجودگی کا کیا مقصد تھا مگر ہمارے معاشرے کے اندر اس بات کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ۔ عظمیٰ خان اس وقت پاکستان کی ایک معروف ایکڑیس ہیں ۔ اُن کا کردار اپنی عوام کے سامنے مثالی ہونا چائے تھا ۔
میری اُن تمام شوبز سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے کردار کو عوام کے سامننے ایک اعلیٰ کردار کے طور پر پیش کریں ۔اور وہ لوگ اس بات کو یقینی بنائیں کی اُن کی طرف سے معاشرے کے اندر کوئی بھی ایسا اقدام نہیں ہوگا جو کہ معاشرے میں برائی پھیلانے کا سبب بنے ۔
اس بات کے دونوں پہلو کو مد نظر رکھ کر چھان بین کی جائے ۔ جو کوئی بھی اس میں قصور وار ہے اُسے قرار واقعی سزا دی جائے ۔ چائے وہ طاقتور ہے ۔ میری اُن تمام احباب سے گزارش ہے جو کہ سوشل میڈیا پر بغیر تحقیق کئے اپنے کمنٹس پاس کرنا شروع کر دتیے ۔ اُنھہں چائیے کہ وہ حقائق کو جاننے کی بھی کوشش کر لیا کریں ۔ اس طرح معاشرے کے اندر اعتدال رہتا ہے جب آپ بغیر تحقیق اور حقائق کو جاننے کے بغیر کسی کے کردار پر کیچڑ اچھالنا شروع کر دیتے ہیں تو ۔ اس سے اُس شخص کی دل آزاری ہوتی ہے جس پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ ہمارا مذہب بھی یہی کہتا ہے کہ بغیر تحقیق کئے کسی بھی بات کو آگے مت پھیلاو ۔
واسلام