تازہ ترین

کیا نیوزی لینڈ میں بین الاقوامی کرکٹ نہیں ہونی چاہیئے

نیوزی لینڈ مسجد حملہ
  • محمد علی اظہر
  • اپریل 7, 2019
  • 9:32 شام

15 مارچ بروز جمعہ کرائسٹ چرچ میں نمازیوں پر فائرنگ کا ایسا دل خراش واقعہ رونما ہوا، جس نے ثابت کردیا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب اور ملک نہیں ہوتا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کو کسی مذہب سے جوڑنا انسانیت کی توہین ہے۔ کرائسٹ چرچ میں ایک ماہ قبل ہونے والے سفاکانہ حملے کا اثر چونکہ میری دلچسپی کے موضوع یعنی کرکٹ پر بھی پڑا اس لئے اس مسئلے پر لکھنے بیٹھ گیا۔

کرائسٹ چرچ کی جن مساجد میں فائرنگ کرکے معصوم نمازیوں کو شہید کیا گیا انہی میں سے ایک مسجد میں نیوزی لینڈ کے دورہ پر آئے ہوئے بنگلہ دیشی کرکٹرز بھی نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے جا رہے تھے کہ انہیں راستے میں فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔ ایک اطلاع کے مطابق جب حملہ ہوا تو بنگلہ دیشی کرکٹرز النور مسجد سے محض 45 گز کے فاصلے پر تھے اور وہ بال بال بچے۔ دہشت گرد کارروائی کے بعد بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ نے نیوزی لینڈ سے اپنی ٹیم کو واپس بلا لیا۔ دونوں ٹیموں کے درمیان کرائسٹ چرچ میں شیڈولڈ آخری ٹیسٹ میچ منسوخ کر دیا گیا۔ اب لوگ سوال اٹھانے لگے کہ کیا نیوزی لینڈ پر بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بند ہوجانے چاہئیں۔ میں پوچھتا ہوں کیوں۔ کیا دورہ منسوخ کرنے یا کرکٹ ٹیم کو دہشت گردی کے شکار ملک سے نکالنے کے عمل سے دہشت گردی ختم ہوجائے گی؟؟ دہشت گردی سے متاثرہ ملک میں کرکٹ نہ ہونے کا نقصان کیا دہشت گردوں کو ہوگا؟؟ آسان سا جواب ہے، نہیں۔ اس کا نقصان صرف اور صرف کرکٹ کو ہوگا۔ جیٹنل مین گیم سے محبت کرنے والے کروڑوں شائقین کو ہوگا۔ اُس ملک کے عوام کو ہوگا، جو نجانے کتنے برس تک اپنے گراؤنڈ پر انٹرنیشنل میچز نہیں دیکھ پائیں گے۔ بالکل ویسے ہی جس طرح ہمارے پیارے ملک پاکستان کے ساتھ ہوا۔

ایک دہشت گرد حملے نے پاکستان کو کئی برس تک بین الاقوامی کرکٹ کی میزبانی کے حق سے محروم رکھا۔ ہم نے 2009 میں سری لنکن ٹیم پر ہونے والے حملے کی بھاری قیمت ادا کی۔ ورلڈ کپ 2011 کی مشترکہ میزبانی چھن گئی۔ سالہا سال تک پاکستان میں کوئی انٹرنیشنل ٹیم میچ کھیلنے نہیں آئی۔ یہاں شائقین ہوم گراؤنڈ پر ملکی اور غیر ملکی اسٹارز کو کھیلتا دیکھنے کیلئے ترستے رہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کو اپنی ہوم سیریز متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں کھیلنا پڑی۔ سچ تو یہ ہے کہ آج بھی ہم 10 برس قبل ہونے والے حملے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ حال ہی میں کرکٹ آسٹریلیا (سی اے) نے ایک بار پھر اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔ کرکٹ پرستار کے طور پر مجھے اس بات کا کتنا دُکھ ہوا مت پوچھیئے۔ کیا ہم اس قابل بھی نہیں کہ آسٹریلوی کرکٹ ٹیم محض دو ون ڈے میچ کھیلنے کیلئے پاکستان آجاتی۔ حسب روایت پاک آسٹریلیا سیریز متحدہ عرب امارات کے شائقین سے خالی میدانوں میں کھیلی گئی۔

واضح رہے کہ سیکورٹی وجوہات کی بنا پر نیوزی لینڈ کے آل راؤنڈر کورے اینڈرسن نے بھی مارچ میں لاہور قلندرز کے اسکواڈ کے ہمراہ کراچی آنے سے معذرت کرلی تھی۔ اس رویے نے مجھے اور مجھ جیسے انگنت شائقین کرکٹ کو بہت مایوس کیا، جو کورے اینڈرسن اور انجری کے باعث پاکستان سُپر لیگ سے باہر ہو جانے والے جنوبی افریقہ کے سابق کپتان ابراہم ڈی ولیئر کو نیشنل اسٹیڈیم، کراچی میں اِن ایکشن دیکھنا چاہتے تھے۔ دیکھیں ناں سیکورٹی کو جواز بناکر پاکستان آنے سے انکار کرنے والے کورے اینڈرسن کے اپنے ملک میں تاریخ کی بدترین دہشت گردی ہوگئی۔ نیوزی لینڈ کو دنیا کا دوسرا پُر امن ترین ملک قرار دیا جاتا ہے، لیکن کیوی سرزمین بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں رہی۔ بے گناہ انسانوں کے قتل عام پر دل آج بھی رنجیدہ ہے۔

میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کو نیوزی لینڈ کا دورہ منسوخ نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ دورہ منسوخی کا فیصلہ بنگلہ دیش اور کرکٹ نیوزی لینڈ نے باہمی رضامندی سے کیا، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر دونوں بورڈز کرائسٹ چرچ ٹیسٹ کو منسوخ کرنے کے بجائے ملتوی کرنے پر متفق ہوجاتے۔ خود سوچیں دورہ منسوخ کرنے کے فیصلے سے دہشت گردوں کو کیا پیغام دیا گیا؟؟ ہمیں دہشت گردوں کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکنے چاہئیں۔ ہمیں دہشت گردوں پر واضح کرنا چاہیئے کہ جینٹل مین گیم کھیلنے والے لوگ ڈرپوک نہیں ہوتے۔ ہمیں دہشت گردوں کو اپنے دلیرانہ اقدام سے کُھلا پیغام دینا چاہیئے کہ کچھ بھی ہوجائے کرکٹ جاری رہے گی۔ صحت مندانہ سرگرمیوں سے ہی دہشت گردی کی روک تھام ممکن ہے۔ ہمیں کرکٹ سمیت ہر کھیل کو سپورٹ کرنا چاہیئے اور تمام کرکٹ کھیلنے والے ممالک کو ایک دوسرے کو سپورٹ کرنا چاہیئے، کیونکہ یہی کھیل ہمیں جوڑتا ہے۔

میں نے کھیلوں میں دہشت گردی کے حوالے سے چند برس پہلے ایک رپورٹ مرتب کی تھی۔ بدقسمتی سے گزشتہ ماہ اس میں ایک خونی واقعہ کا مزید اضافہ ہوگیا۔ کھیلوں میں دہشت گردی کی تاریخ 41 برس پرانی ہے۔ دنیائے کھیل پر پہلا حملہ 1972 میں ہونے والے میونخ اولمپکس میں ہوا تھا، جس میں 11 اسرائیلی ایتھلیٹ مارے گئے تھے۔ اس کے بعد سری لنکا، پاکستان، افریقی ملک انگولا، افغانستان، فرانس، جرمنی اور ترکی میں بھی کھلاڑی دہشت گردی کی زد میں آئے۔

غور طلب امر یہ ہے کہ 2016 سے 2017 کے درمیان دہشت گرد تنظیم داعش نے فٹبال کو اپنے نشانے پر رکھا اور تین ممالک میں فٹبال میچوں کے دوران منظم حملے کرائے۔ واضح رہے کہ 13 نومبر 2017 کو فرانس کے دارالحکومت پیرس کے فٹبال اسٹیڈیم میں فرانس اور جرمنی کے درمیان کھیلے گئے دوستانہ میچ کے موقع پر یکے بعد دیگرے تین خودکش دھماکے ہوئے تھے۔ اسٹیڈیم میں اُس وقت کے فرانسیسی صدر نکولس اولاندے بھی موجود تھے، لیکن ہائی پروفائل سیکورٹی کے باوجود خودکش حملہ آور اسٹیڈیم کے گیٹ تک آگئے اور خود کو دھماکہ خیز مواد سے اُڑا دیا۔ ایک عام آدمی کی طرح میرے ذہن میں بھی یہ سوال اٹھا کہ سخت سیکورٹی انتظامات کے باوجود دہشت گرد اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب کیسے ہوگئے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ مذکورہ کارروائی میں کئی انسانی جانیں لینے کے باوجود دہشت گرد اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہوئے، وہ فرانس اور جرمنی کے عوام، کھلاڑیوں اور حکمرانوں کو خوفزدہ نہیں کرسکے، کیونکہ اس واقعے کے بعد بھی فرانس میں فٹبال میچوں کا انعقاد بند نہیں ہوا۔ فرانس میں ٹیرر الرٹ کے باوجود فٹبال کے مقابلے جاری رہے۔

اسی طرح 2017 چیمپئنز ٹرافی کے دوران انگلینڈ کے دارالحکومت لندن میں کئی چاقو حملے ہوئے، لیکن ایونٹ بلا تعطل جاری رہا۔ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ (ای سی بی) نے ٹورنامنٹ میں شریک تمام 8 ٹاپ ٹیموں کو فول پروف سیکورٹی کی یقین دہانی کرائی اور سب نے حفاظتی انتظامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ یا یوں کہہ لیجیئے کہ مشکل وقت میں دنیا کے تیسرے بڑے اور مالدار کرکٹ بورڈ کا ساتھ دیا۔

میری خواہش ہے کہ فٹبال کھیلنے والے ممالک کی طرح کرکٹ کھیلنے والے ممالک بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور دہشت گردی کا نشانہ بننے والے کسی بھی ملک پر کرکٹ کے دروازے بند کرنے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ دنیائے کرکٹ میں اس کی ایک مثال 2017 چیمپئنز ٹرافی کے دوران ضرور دیکھنے کو ملی، لیکن ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی واقعہ اگر کم ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملک میں رونما ہوجائے تو کرکٹ کھیلنے والے بڑے ممالک/ بورڈز اس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔
دہشت گردی یا بم دھماکوں کو جواز بناکر ٹیم بھیجنے سے انکار کرنے، دورہ منسوخ کرنے یا ادھورہ چھوڑ جانے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیئے، کیونکہ دہشت گردی کہیں بھی اور کبھی بھی ہوسکتی ہے۔ دہشت گردوں کو شکست دینے کیلئے اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ان کا ہر میدان میں مقابلہ کرنا ہوگا۔

محمد علی اظہر

محمد علی اظہر نے ایک دہائی کے عرصے میں سب ایڈیٹنگ سمیت اسپورٹس اور کامرس رپورٹنگ میں اپنی صلاحیت منوائی ہے۔ وہ کراچی پریس کلب کے ممبر ہیں اور اردو نیوز ویب سائٹ "واضح رہے" کے بانیوں میں سے ہیں۔

محمد علی اظہر