تازہ ترین

بقراطیاں

  • محمد عدنان کیانی
  • اپریل 30, 2020
  • 2:04 صبح

تمام دنیا اس وقت کرونا زدہ  ہے۔دنیا کی تمام سپر پاورز اپنے ہی ملکوں اور گھروں  میں قید  ہیں ۔ہم  بھی لاک ڈاون کا شکارہیں

صحافی  اگرچہ  کبھی  فارغ  نہیں  رہتا اسے تو  ہر طرح کے حالات  میں  اپنے فرائض سرانجام دینے ہی ہوتے ہیں  لیکن  حقیقت ہے  موجودہ لاک ڈاون  جس طرح کے حالات  سے  دنیا والوں کو دوچار  کررہا ہے ایسا شاید ہی  پہلے  کبھی  ہوا ہو۔ میں کبھی کبھار چائے پینے اپنے ایک  بہت ہی عزیز کے گھر چلا جاتا  ہوں ۔آج  بھی وہاں  گیا تو وہ بیچارے  موجوہ  نسل  کے سست اور لاپروا  ہونے  پر کافی  گراں  خاطر تھے۔اپنے بچوں کو سمجھارہے تھے کہ سستی اچھی چیز  نہیں ۔  ہم بھی بیٹھے  تھے تو ان کے بچوں کو شاید یہ گراں  گذرا او ر ان کی  بچی  کہنے  لگی ارے  سستی ایسی  بھی بری چیز  نہیں  دیکھیں  بل گیٹس جیسا بھی کوئی کامیاب آدمی ہے؟   جس کی کمپنی مائیکروسافٹ  نے پوری دنیا میں  پنجے  گاڑ رکھے ہیں ،پوری  دنیا کا سب سے امیر  ترین آدمی ہے مگر آپ کو پتہ  ہے  اس نے اپنی کمپنی  کیسے آسمان  کی اونچائی تک پہنچادی ؟ہم  بڑے  غور سے  سن  رہے تھے  کہ جناب سستی  سے بل گیٹس کا کیا  لینا  دینا؟ تو  صاحبزادی  کہنے لگیں  بل گیٹس  اپنی کمپنی میں سب سست  ترین افراد کو نوکری کیلئے  برتری دیا کرتے   ہیں  اسلئے کہ ان کا  کہنا ہے کہ میں  ہمیشہ  مشکل  کام کیلئے   سست ترین آدمی کو  چنتا  ہوں   کیونکہ  وہ بہت مشکل کام  کو سرانجام دینے  کیلئے  سب سے  آسان راستہ ڈھونڈ لے گا۔اسلئے سستی  بری شے  نہیں ۔اب تو   ہمارا ماتھا ٹھنکا۔ کہ لوجی  اب  ہمیں  سست الوجود   نکموں کو بھی داد دینی  ہوگی۔ بجائے  اپنی اصلاح کے محترمہ  نے  کیا  بقراطی  پیش کی ہے۔ایسے میں  میرا دہیان موجودہ  دور  کے ان  تمام بقراطوں  پر چلاگیا  جو زبان سے  بڑے  بقراط  بنے  پھرتے  ہیں  مگر  علم و عمل  میں اتنے  ہی  بڑے  نکمے ہوتے ہیں  اور  موجودہ دور حکومت  میں  تو یہ  بقراط وزیر اعظم  صاحب کی   چھتری  تلے  اس قدر  جمع ہو گئے ہیں  کہ ایسے   بقراطوں    کی فوج ظفر  موج ہر جگہ ، ہر شعبے،ہر  گلی  کوچے  میں   چیونٹیوں  کی مانند  بلوں سے باہر آگئی ہے۔

سقراط و بقراط کو  معقولیات کا امام  مانا جاتا ہے۔ دونوں  ہی قبل مسیح   کے  یونانی  حکیم  اور فلسفی  ہیں ۔ سقراط  کے   بہت سے  اقوال و افعال  اسلام کے   موافق  دکھتے ہیں  جبکہ  بقراط  عقل   کی نارسائی سے  اللہ تبارک و تعالی  سے تعلق کو محال جانتا تھا اور اسی لئے   صرف   عقل  کو عقل  کل   اور خدا   مانتا تھا۔ وہ عقل  کی کسوٹی  پر  ہر چیز  پرکھتا اور جو  اسکی  عقل اسے  سجھاتی وہی   محض  صحیح  اور  حرف آخر  جانتا تھا۔ عقل  کے برخلاف  کسی  اصو ل و تجربے  حتی  کے  بدیہی  امور کو  بھی  بھاو  نہیں   دیتا تھا، عقول عشرۃ  کا قائل اور دین و مذہب سے قطعی   بیزار تھا البتہ طب میں   موصوف   کی   کافی   کاوشیں   مانی  جاتی ہیں اور اسے  دواوں کا باپ ( فادر آف  میڈیسن) کہا جاتا ہے، دل   اور  پھیپھڑے  کی بیماریوں    کا علاج اسکی ایجاد سمجھا جاتا ہے۔یاد رہے  یونان  کی حکمت  اور فلسفہ مشہور  ہے جس میں سقراط و بقراط کا بڑا ہاتھ ہے۔ ایک ایسا وقت بھی تھا جب یونانی اس قدر فلسفے   اور  عقلیات  میں آگے  بڑھ  گئے تھے کہ  خدائی طاقتوں  کے دعوےدار  ہوکر اللہ کی ذات عالی سے ہی منکر ہوگئے تھے۔اسلئے  انہیں   اللہ عزو جل  نے  عذاب  بھیج کر صفحہ ہستی سے  ہی مٹا دیا۔ آج  بھی  جو شخص  محض  باتوں کا امام  ہو ،  رطب و یابس عقلی دلائل  دیتا  پھرے مگر نہ  عقل  پلے ہو نہ   ہی دلیل،  نہ ہی   اچھے کاموں کا خوگر۔ ایسے  کیلئے   کہا جاتا ہے  کہ بئی ان سے بس  بقراطیاں کرالو ،  علم و عمل سے دور کا بھی لینا   دینا   نہیں ۔

اب   اپنی  حکومت ، وزرا ،  ہر شعبے اور  اپنے ارد گرد  کے ماحول میں  غور فرمائیں،بےشمار  بقراطیاں  فرماتے   کئی  بقراط  مل جائیں گے۔ ہماری حکمران  جماعت کو ہی لے  لی جیئے ۔ بقراطیوں   کی  لمبی  فہرست  ہے۔عمران  خان  صاحب نے 5  برس  کے پی حکومت کے مزے اڑائے اور  2 دہائی  سے زائد سے سیاست سے وابستہ ہیں  مگر اس قسم کی بقراطیاں  وفاق  میں  حکومت بنانے سے قبل اور اب تک  فرماتے جارہے ہیں  کہ انسان  سر پیٹ لے۔ریاست  مدینہ کا  نعرہ  لگایا مگر  قادیانیوں  کو نوازنے  کی  ہر ممکن کوشش کرتے رہتے  ہیں ۔پھر چاہےحج  فارم سے قادیانوں کا  خانہ  ختم  کرنے کی بات ہو  یا معاشی یا اقلیتی  کمیٹی میں  کسی قادیانی رکن کو شامل کرنے  کی بات۔وہ ایسی کوششیں فرماتے آرہے ہیں ۔جیسے فرماتے  تھے کہ     روزانہ  عربوں روپے کی چوری ہورہی ہے  ن لیگی  حکومت میں ،  ہم وہ بند کردینگے( اب اگر وہی  کرپشن  اورخرد برد بند ہوچکی ہے تو جناب پھر ملک   کا وزیر اعظم   ہر  قوم اور ملک میں  بھکاری  کیوں بنا ہوا ہے)۔ قرضے  لئے تو  خود کشی کرلونگا۔ قرضے لینے کی ضرورت ہی  نہیں  ہے(آج تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے لیکر  بھی  الحمد للہ  حیات  ہیں )۔اپنی پارٹی میں  کبھی لوٹے نہیں لونگا اسی وجہ سے  سیاست اور جمہوریت بدنام ہے( آج سب سے زیادہ لوٹے آپ  نے ہی اپنی جماعت میں  بھر رکھے ہیں )۔  بھینسیں  بیچ کر  ہم  پیسے بچائینگے( موصوف نے بھینسوں  کی قیمت سے زیادہ  ان کے بیچنے پر پیسے پھونک  دئے)۔مرغی اور کٹوں   سے معیشت ناصرف مضبوط کرینگے بلکہ  ملک سے  غربت  بھی مٹائینگے(تاہم  غربت  اب تاریخ  کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی  ہے)۔ سڑکیں   بنا نے اور میٹرو  کیخلاف   ہمیشہ سے  بولتے آئے اور پھر  پشاور میں  میٹرو بنانے  کی ٹھان  لی۔  6  ارب میں بناکر دکھائیں گے اور جناب  پشاور بی آر ٹی  اب تک  120  ارب سے زائد پیسہ پی  چکی ہے اور اب تک رواں  تو کیا ہوتی  بقراطوں  نے  اس کی گذرگا ہیں  تنگ اور بسیں بڑی منگالیں ۔اسلئے آج تک نہ وہ جاری ہوسکی شاید اس دور حکومت میں جاری   ہو بھی نہ سکے۔عثمان  بزدار  میرے وسیم اختر ہیں اور اس بقراط وسیم اکرم نے  کیا کیا بقرا طیاں  ماری  ہیں   ایک الگ  کتاب  لکھی  جاسکتی ہے۔ پیٹرول 45 روپے  لیٹر بجلی اور  گیس  سستی ہونی چاہئے۔آپ کو  یاد ہو گا ایسی بقراطیاں    ، بقراط  وزیر ا عظم کے  بقراط معاشی  حکیم  اسد عمر  کہا کرتے تھے۔ اس سے  زیادہ  قیمت ہو تو وہ حکمرانوں کی جیب میں جاتی ہے۔ یقین  کریں   بجلی اور گیس  کی قیمتوں نے  مڈل  اور اپر کلاس تک کو دن میں تارے دکھا دئیے ہیں  اور پیٹرول ریکارڈ سطح تک فی بیرل گرنے  کے باوجود  بھی   100 روپے  کو چھو رہا ہے۔ ڈالر کی اونچی پرواز  اور قرضوں نے   ملکی معیشت کا جنازہ نکال دیا ہے۔200 ارب ڈالر  ملک واپس لانے کی جو چیخیں مراد سعید مارا کرتے تھے وہ بھی   محض   بقراطی  ہی  نکلی۔ بقراطیوں  کا   تذکرہ ہو  اور علی امین گنڈاپوری ، عامر لیاقت، فواد چوہدری ، شیخ رشید ، فردوس عاشق اور  فیصل واوڈا جیسے بقراطوں   کانام  نہ آئے  کیسے ہوسکتا ہے۔ فردوس عاشق  کا اخری  بیان  وزارت  سے نکالے  جانے سے قبل یہ ہے کہ  مساجد کو کرونا پھیلنے کا سبب  نہیں  بننے دینگے۔علی امین گنڈا پوری بقراط  جن کی گاڑی سے  شراب  کی بوتلیں  نکلیں تھیں  انکا  فرمان  تھا  کہ  حکمران  کلبھوشن کو ملک سے باہر  بھیج چکے ہیں !( تاہم کلبھوشن آج بھی جیل میں   ہے)،ایک ارب،20 کروڑ  درخت لگائینگے،300 ڈیم  بنائینگے، بجلی کے پی  کے علاوہ دوسرے  صوبوں کو  بھی  دینگے( ایک یونٹ  بجلی اور ایک ڈیم  نہیں  بنایا)، فیصل واوڈا   کے مطابق  ایک  کروڑ  نوکریوں  کی بارش ہونے والی  ہے نہ ہو تو مجھے گولی ماردیں ( بارش تو نہیں ہوئی   نوکریوں   کی البتہ واوڈا  بھی زندہ ہیں )،  دوسرے مما لک سے  لوگ نوکری کیلئے  پاکستان  آئینگے، میری کوئی بیرون ملک پراپرٹی  نہیں (اور پھر کئی جائیدادیں  نکل آنا)، 50 لاکھ گھر  بنائینگے( گھر تو ایک نہ بنا البتہ انکروچمنٹ  کے نام  پر لاکھوں  پاکستانی  گھروں سے  محروم  کردئیے)،   ملک سے  کرپشن  کا خاتمہ کرینگے(جہانگیر ترین کی  شوگر  ملوں ، سبسڈیز،  ڈیم  فنڈ ، سونامی  ٹری منصوبے، فارن فنڈنگ کے گھپلے، کے پی  نیب  آ فس پر  تالے  ڈالنا، بہن کا عربوں  روپے  بیرون  ملک  غیر قانونی بھیجنا اور آف شور کمپنیوں  سمیت  بےشمار   گھپلےبزبان زد عام  ہیں )،سیاسی تبادلے  نہیں  کرینگے( اور پھر  تبادلوں  کے ریکارڈ بناڈالے)،   انتہائی کم تعداد  کی  کابینہ رکھیں گے(موجودہ کابینہ 50  سے زائد وزرا پر  مشتمل ریکارڈ  بڑی کابینہ ہے)، سادگی   اختیار کرینگے، وزیر اعظم ہاوس استعمال  نہیں  کرینگے بلکہ گورنر اور وزیر اعظم ہاوس  کو  یونیورسٹی بنائینگے، پہلے دن  گورنر ہاوس  کی دیوار  گرادینگے ( مگر آج 50 گاڑیوں سے زائد پروٹوکول   اور ہیلی  کاپٹر سے پاوں نیچے نہیں  رکھتے، رہتے  بھی وزیر اعظم اورگورنر ہاوس میں  ہیں  نہ ہی   دیوار گری نہ   کوئی یونیورسٹی بنی)،  ہیلی کاپٹر سی این جی  گاڑی سے سستا پڑتا ہے گوگل  پر دیکھ لو،   آسیہ  کو  ملک  سے  جانے  نہیں  دینگے (اور پھر باعزت و احترام   باہربھیج دیا)، جان اللہ کو دینی ہے جھوٹ  نہیں  بولوں  گا ،  ویڈیو موجود  ہے سب کے سامنے پیش کرونگا،  رانا ثنا کی گاڑی سے شراب کی  بوتلیں نکلی  ہیں( کئی ماہ کی جانچ کے بعد  بھی  کوئی ویڈیو پیش  نہیں   کی)،  عافیہ کو واپس لائینگے(آج تک اس مسکین مسلمان  بہن کا  دوبارہ تذکرہ  تک  مناسب  نہیں سمجھا)، مودی کی یاری غداری ہے (خود موصوف صبح شام مودی کو کالیں  کرتے  ہیں)،  مودی ایکشن جیتے  تو  کشمیر  کیلئے آسانی ہوجائیگی ( آج کشمیر  گذشتہ کئی ما ہ سے  بدترین کرفیو اور مودی مظالم کی  لپیٹ میں  ہے)،جرمنی اور جاپان کے بارڈر  ملے ہونے ،غزوہ احد  میں صحابہ کرام ؓ   ڈر کر بھاگ  گئے(نعوذ باللہ)،قرآن کریم  میں حضرت موسی ؑ اور حضرت  عیسی ؑ  کا تذکرہ  نہیں ملتا، جو حکمران  یوٹرن  نہ لے وہ لیڈر  ہی نہیں، کرونا وبا سے زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ انسان  مر سکتا ہے  اور پھر کہنا ہسپتالوں پر برا وقت آنے والا ہے لاشوں سے ہسپتال بھر جائینگے،کرونا  کے  15 ٹیسٹ  ہوئے ہیں  جنمیں  سے 22 مثبت  آ ئے  ہیں جیسی  بے شمار بقراتیاں  اس حکومت اور  پی ٹی آئی نے  اپنے دامن میں بڑے فخر سے سمیٹ رکھی  ہیں  اور آئے دن ان میں اضافہ بھی ہوتا جارہا ہے۔

بقراطوں کی  پاکستان میں کمی نہیں ۔وزیر اعلی  سندھ مراد علی شاہ  نے بڑی آسانی سے   کرونا وبا کو تبلیغی  جماعت  کے ساتھ نتھی کردیا    تاہم   w.h.o  نے  بھانڈا پھوڑ دیا کہ  جناب  تمام کیسز 50 فیصد سے زائد  تفتان سے  زائرین ساتھ لائے جبکہ 27 فیصد دوسرے ممالک سے آئے  ۔ تبلیغی  جماعت کے ایک فیصد لوگ  بھی  کرونا متاثر نہ نکلے۔موصوف   بھٹو شہید  کی برسی  ، تمام سپر اسٹورز،  دودھ کی دکانوں ، بیکریوں   اور راشن تقسیم ہوتے وقت  سیکڑوں ا فراد  کے  اجتماع کو کرونا  کیخلاف احتیاطی  تدابیر سے متصادم نہیں  سمجھتے،ایک خاص مکتبہ فکر کے اجتماعات کو  بھی کرونا کے پھیلاو کا سبب  نہیں  سمجھتے مگر مساجد  و مدارس اور  نماز  جمعہ و تراویح   کو  کرونا  وبا کے  پھیلاو کا آسان سبب سمجھتے ہیں ۔وفاقی  کمیٹی اور علما کے مشترکہ  اعلامیہ کے بعد اچانک  سے پھر صرف سندھ  میں رمضان المبارک  میں دوبارہ  مساجد و نماز  باجماعت  پر پابندی  عائد  کردی ہے اور اسے  اپنی  فراست  سمجھتے  ہیں ۔ایک ارب 8   کروڑ   سے زائد کا راشن بانٹ دیا  مگر وہ کہاں  تقسیم ہوا کسی کو ہوا تک  نہیں  لگی۔سابق چیف جسٹس ثاقب  نثار  جو بڑی  ڈینگیں  مارا کرتے  تھے  ڈیم  بناونگا ،  ملک میں انصاف  ہی انصاف  کا دور دورہ ہوگا مگر وقت  نےثا بت کیا وہ  بھی  بس بقراطیوں کے  ماہر  بنتے رہے کام ٹکے کا  نہیں کیا۔ دوسروں کے اثاثوں کی جانچ اور  بھونڈی وجوہات پر سزائیں، متنازع فیصلے  سنانے والا ایک  جج  اپنے بیٹے کی  شادی پر کروڑوں روپے خرچ کر دیتا ہے ،  جس کی  ناک کے نیچے  ڈیم فنڈ میں  بدترین خرد برد  کیا گیا، جسکی آنکھوں  کے سامنے اور اس کے  ہاتھوں  میں  موجود   شراب کی  بوتلوں  کو شہد بنادیا  گیا، جو عدالت میں  بیٹھ  کر ملک ریاض سے ریکارڈ پر انصاف  بیچنے کا مول تول کرتا رہا   وہ ملکی  تاریخ  کے  سب سے زیادہ  سوموٹو لینے والا جج تاریخ کے سب سے زیادہ مقدمات پینڈنگ چھوڑ گیا۔موصوف  نے  خوب بقراطیاں  ماریں  مگر جو   اپنا  فرض  منصبی  تھا وہی نہیں  کیا۔

ایسی بقراطیاں  کہتے آپ  کواپنے آس پاس ،  گھر ، رشتہ داروں میں    غرض ہر جگہ  ہی مل جائینگے۔ جنہیں  علم و عمل، صحیح  یا  غلط سے کوئی لینا دینا  نہیں ۔ وہ صرف عقل کے راگ اور  بوگس دلائل سے  دوسروں  کے حق کھاتے یا ان سے جان چھڑاتے  ملیں گے  ورنہ کم سے  کم  سست و کاہل ہوکر کسی  نہ کسی  کے گلے کا ہار  ضرور  بنے ہوئے  دکھیں  گے ۔ دیکھیں  تو   کوئی اولاد خدمت و سکون کے بجائے انہی بقراطیوں  سے والدین کو  بیوقوف بناتے ، کوئی بھائی یا بہن  اپنے ہی کسی بھائی یا بہن  سے بدترین  سلوک کرتا ، کہیں کوئی ملازم کام کے بجائے باس کو بقرا طیوں  سے بہلاتا، کوئی تاجر کسی خریدار کو  ایمانداری کی بقراطیاں  سنا کر لوٹتا، کہیں کوئی عامل عملیات کی  بقراطیاں سنا کر مال سمیٹتا  ملے گا۔ہمیں سوچنا چاہئے ان بقراطیوں  سے  ہمیں  سوائے کانوں کو خوش کرنے کے اور  حاصل کیا ہورہا ہے ۔  ملک  میں  کس قدر ترقی پیدا ہورہی  ہے۔ معیشت  کتنا  مضبوط  ہورہی  ہے۔  کتنے آشیانے  سج رہے ہیں ، کتنے  خاندان  سکھ کا سانس لے رہے  ہیں ۔ ہم  ان  بقراطیوں  سے اپنی موجودہ نسل کی کیا تربیت کررہے  ہیں ۔دیکھنا  ہوگا  کہ کہیں  ہماری  موجودہ نسل صرف  زبان کی بقراط  تو  نہیں بنتی  جارہی جو صرف اپنی عقل  غیر  مستقیم کو امام  مانتی ہو جسے عمل ، محنت، کوشش، اسلاف  کے  اقوال و افعال، مذہب کے بتائے اصول و ضوابط کی پرواہ  ہی  نہ ہو۔ان  بقراطوں  نے یونان کو تباہ  کرڈالا، ہماری  ملکی  معیشت   کو  برباد  کرڈالا ہے اگر   ہم نے  بھی یہی  ڈگر پکڑی رکھی  تو پھر ہمارا  بھی اللہ ہی حافظ۔

 

محمد عدنان کیانی

محمد عدنان کیانی بین الاقوامی سطح پر جانی جانے والی دینی شخصیات کے انٹرویوز کے سلسلے میں اپنا مقام بنا چکے ہیں۔ وہ اردو و انگریزی کالم نگاری اور سب ایڈیٹنگ سمیت سماجی خدمات میں بھی پیش پیش ہیں۔ مذہبی امور پر مضبوط گرفت رکھتے ہیں۔

محمد عدنان کیانی