تازہ ترین

کورونا کی عقلمندی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کرونا وائرس
  • ناصر محمود
  • اپریل 7, 2020
  • 1:41 صبح

محب وطن حلقوں نے کیا خوب کہا ہے کہ 9 لاکھ فوج میں کوئی کورونا کا مریض نہیں کیونکہ وہ ایک قوم کا طاقتور طبقہ ہے۔ 40 لاکھ پولیس میں کوئی مریض نہیں۔ ڈیڑھ سو کے لگ بھگ چینلز پہ بیٹھے جھوٹ پھیلانے والے اینکرز، ان کی ٹیموں پر کورونا اثر انداز نہیں ہوتا۔

راشن کیلئے طویل قطاریں، اے ٹی ایم مشین پر جمع بھیڑ اور امتیاز اسٹور میں گھسی عوام پر بھی کورونا آنکھ بند کرکے آگے گزر جاتا ہے۔ میڈیکل اسٹورز، سبزی منڈی اور یوٹیلیٹی اسٹورز بھی اس سے بچے ہوئے ہوئے ہیں۔ مگر کورونا تبلیغی جماعت پر حملہ کرتا ہے کیونکہ یہ شریف اور دیندار لوگ ہیں۔ کورونا مسجدوں میں آتا ہے کیونکہ وہاں بھی شریف اور دیندار لوگ جاتے ہیں۔ کورونا مدرسوں میں آتا ہے کیونکہ وہاں قرآن سیکھا سکھایا جاتا ہے۔

جہاں تک وردی والوں کا تعلق ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے گویا آب حیات پی رکھا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ عام شہری گھروں میں قید ہیں اور وہ سب آزاد۔ کیا ان کے بیوی بچے نہیں گھر بار نہیں۔ سمجھدار لوگوں کا فرمانا ہے کہ انھوں نے آب حیات نہیں بلکہ آب زر پی رکھا ہے جس کے نتیجے میں وہ تمام پابندیوں سے آزاد پورے ملک میں راج کرتے ہیں اور اہل اقتدار کا ہرحکم بجا لاتے ہیں۔ یا باالفاظ دیگر تمام اقتدار خود اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں- بعض لوگوں کے دل میں رحم کے جذبات موجیں مارتے ہیں کہ ہائے بیچارے اتنی کم تنخواہ میں کتنی شدید محنت کرتے ہیں۔ مگر باخبر حلقوں کا کہنا ہےکہ اس طرح کی اضافی خدمات کے نتیجے میں ان تمام اہلکاروں کو خصوصی طور پر اضافی معاوضوں کی ادائیگی قومی خزانے سے کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر قومی مردم شماری کے موقع پرجب فوجی بھائیوں کی خدمات حاصل کی گئیں تو پورے ایک ماہ تک اس میں شامل افراد کو ہرروز ایک ہزار روپے فی کس اضافی ادائیگی کی گئی۔ اسی طرح ملک میں سیلاب اور زلزلہ جیسی قدرتی آفات کے موقع پر بھی ان کی خدمات کا اضافی معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔ اس غرض سےقومی خزانے سے بھاری رقوم مختص کی جاتی ہیں۔

اسی طرح پولیس کے دستے جو شہروں میں مختلف ہڑتالوں، مظاہروں، مذہبی جلوسوں اورمحرم کےعشرہ میں ڈیوٹیاں انجام دیتے نظرآتے ہیں ان پربھی قومی خزانے سےخطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہےکہ خربوزہ چھری پرگرے یا چھری خربوزے پر نقصان عوام کے خون پسینے سے جمع کردہ قومی خزانے کا ہی ہوتا ہے۔ اب ان عوام کو گھروں کی جیل میں زبردستی بند کیا جارہا ہے اور سزاؤں سے ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ ان کو رشوتوں کے عوض چھوڑا جارہا ہے۔

بیرون ملک سے آمدہ خبروں کے مطابق کینیڈا میں شاپنگ مالز، دکانیں، بینک، ریسٹورنٹس کھلے ہیں البتہ تین چار گھنٹے کم کردیئے ہیں۔ تمام ٹرینیں،بسیں چل رہی ہیں البتہ سواریاں کم تعداد میں ہیں۔ دکانوں، سپر مارکیٹوں، دفاتر اور فیکٹریوں کے آنے جانے والوں پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ مگر پاکستان میں کورونا نے افراتفری پھیلا رکھی ہے۔ حکمراں بوکھلائے ہوئے نت نئے تجربات کر رہے اور عوام کو خوف وہراس میں مبتلا کر رہے ہیں۔ سندھ حکومت زبردستی لاک ڈاون کرکے غریب عوام کو ڈرا رہی ہے جبکہ پاکستان اور مغربی ممالک میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔ غریب عوام کی اکثریت کام کئے بغیر گھروں میں کیسے رہ سکتی ہے۔ صوبے اور مرکز کے حکام گزشتہ تین ہفتوں سے عام لوگوں کو غذائی اور مالی امداد کے کھوکھلے وعدوں اور اعلانات پر ٹرخا رہے ہیں۔ ان کے مقرر کردہ وردی والے ملازمین عام شہریوں کے ساتھ ذلت آمیز سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔ ٹرانسپورٹ، فیکٹریاں اور دفاتر بند کرکے وہ معیشت کا ستیاناس کرتے ہوئے خود اپنے ہاتھوں سے تباہی لانے میں مصروف ہیں۔ پوری دنیا میں سُپر مارکیٹس، فیکٹریاں اور دکانیں کھلی ہیں۔ مگر ہمارے حاکم ہر روز ایک نئی سختی کی نوید سنانے میں مصروف ہیں مثلاً سندھ حکومت نے بیکریوں پر بھی پابندی لگادی ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ تمام صورتحال ملک کو خانہ جنگی کے ذریعے معاشی طور پر دیوالیہ تو کرسکتی ہے مگر کسی قسم کی بہتری ہرگز نہیں لا سکتی۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حکومت نے آٹا، چینی بحران کے ذمہ داروں کے بارے میں انکوائری رپورٹ تو شائع کردی۔ وزیراعظم اور ان کے ایک مشیر نے بغلیں بجاتے ہوئے رپورٹ پبلک کرنے کو ایک مثال بھی قرار دیدیا۔ لیکن اس کے نتیجے میں کتنے مجرموں کو سزا ہوئی اور کتنی رقوم کے جرمانے وصول کئے گئے اس بارے میں کوئی بتانے والا نہیں۔

امریکی صدر اور ان کے مشیروں کی ٹیم نے جو کورونا وائرس کا جال چینی معیشت کو تباہ و برباد کرنے کیلئے پھیلایا تھا اب اس میں خود پھنس گئے ہیں۔ دجال کے پیروکار امریکی و یورپی منصوبہ سازوں نے ساری دنیا پر اپنی حکومت قائم کرنے کا جو خواب دیکھ رکھا ہے اس کی بنیاد یہ ہے کہ خدا کی بنائی ہوئی اس زمین کی آبادی کو جو سات ارب نفوس سے اوپر جاچکی ہے ہرصورت کم کرکے صرف پچاس کروڑ تک لایا جائے۔ اس غرض سےانھوں نےعالمی سطح پر بدمعاشی کرتے ہوئے مختلف خونی جنگوں اور دیگر حیلوں وبہانوں سے جن میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ، مختلف قسم کے اقتصادی وتجارتی بائیکاٹ کی بلیک میلنگ، ہر سال پھیلائی گئی جراثیمی بیماریوں اور ویکسینیشن کی سازشوں کے گر استعمال کرکے دیکھ لئے مگر ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

اسی سلسلےکی ایک نئی غنڈہ گردی جراثیمی ہتھیاروں کی جنگ ہے۔ اس کا مقصد کوروناکے ذریعےساری دنیا میں خوف و ہراس اوربھوک وافلاس کی فضا پیدا کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنا ہے۔ اس جنگ کے حوالے سے جو دلچسپ حقائق اب تک سامنے آئے ہیں ان کے مطابق اٹلی اور امریکہ میں ایک منصوبہ کے تحت عمر رسیدہ افراد کو زبردستی پکڑ کر انہیں کورونازدہ قرار دیا جاتا ہے اور زہریلے انجکشن لگا کرموت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی براہ راست آگ کی بھٹیوں میں لاشیں جلادی جاتی ہیں- اس طرزعمل سےدہرا فائدہ ھوتا ہے، ایک تو بوڑھے ناکارہ لوگوں سے جان چھوٹ جاتی ہے اور دوسری جانب انھیں ادا کی جانیوالی ہزاروں ڈالر ماہانہ پنشن یا بیروزگاری الاونس کی بچت ہونے لگی ہے- لہٰذا دیگر بیماریوں سے مرنے والےافراد کو بھی کورونا کے کھاتے میں ڈال کرجان چھڑائی جارہی ہے۔

نیو ورلڈ آرڈر کاجو طاغوتی منصوبہ اقوام متحدہ کی چھتری تلے بنایا گیا ہے اس کو ایجنڈا 21 کہا جاتاہے۔ 1992ء میں طے کردہ اس معاہدہ پر برازیل میں178 ملکوں کی حکومتوں نے دستخط کئے تھے۔ اس کا اہم ترین جزیہ ہے کہ سن2030 تک دنیا کی آبادی کو پچانوے فیصد کم کردیا جائے۔ ڈی پاپولیشن کے عنوان سے تیار کردہ اس منصوبے کے خالقوں کا کہناہےکہ دنیا کو اتنی زیادہ آبادی کی ہرگزضرورت نہیں ہے جس نے ماحول کو آلودہ کر رکھا ہے۔ اس خفیہ منصوبے کے پانچ فیصد کھرب پتی خالقوں کا موقف ہے کہ صرف انھیں اس دنیا پر اپنی واحد حکومت قائم کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے- لہٰذا باقی لوگوں کو کاٹھ کباڑ قرار دے کر ان کا صفایا کرنے کیلئے انہوں نے جدید ٹیکنالوجی کا سہارالینےکا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کیلئےامریکی ریاست الاسکا میں قائم کردہ حارپ سینٹراور دنیا بھر میں پھیلی اس کی شاخیں ہائی فریکوئنسی ریسرچ پروگرام کے ذریعے متواتر کام میں مصروف ہیں۔ ان سے دنیا بھر میں تیزابی چھڑکاوٓ، مصنوعی زلزلوں، سونامی و دیگر بظاہر قدرتی آفات کے ذریعےتباہی پھیلانے اور بھاری تعداد میں لوگوں کو جان سے مارنے کا کام لیا جارہا ہے۔

اس کےعلاوہ پچھلی نصف صدی کے دوران امریکی و یورپی حکومتوں نے جو بے شمار بلاوجہ کی جنگیں چھیڑیں اوران میں کروڑوں بے گناہ لوگوں کوموت کےگھاٹ اتارا وہ بھی اس منصوبے کا اہم حصہ تھیں۔ اس دوران سب سے زیادہ انہوں نے مسلمانوں کا خون بہایا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے دوران خون کی جوہولی کھیلی گئی اور کشمیرو بھارت میں جو گھناؤنا کھیل اب تک جاری ہے وہ ان شیطانی طاقتوں کی پشت پناہی کے بغیر ناممکن تھا۔ پاکستان میں ایم کیو ایم کی تشکیل کےذریعے تیس برسوں تک انھوں نے بھارتی تعاون سے قتل وغارت کا جو کہرام برپا کیا اس کے زخم ابھی تازہ ہیں۔ افغانستان کو جنگ کی آگ کا پچھلے چالیس سال سے ایندھن بنا رکھا ہے، اس میں پاکستان کا بھی اتنا ہی نقصان ہوا جتنا افغان بھائیوں کا۔ عراق کے ایٹمی پلانٹ پر اسرائیلی حملےسےلےکرصدام حسین کی پھانسی تک جو سیریز چلائی گئی اس کا اختتام ابھی نہیں ہوا۔ فلسطین میں اسرائیل کی پشت پناہی کرکے مسلسل فساد کا جو بیج انہوں نے بویا تھا وہ آج تناوردرخت بن چکا ہے اوراس کی جڑوں کومسلمانوں کےخون سےسینچاجا رہا ہے۔ عرب اسپرنگ کےعنوان سے لیبیا، شام، مصر اور یمن کی تباہی کا جو نقشہ تیار کیا گیا تھا اس پرمکمل دلجمعی کے ساتھ عمل درآمد جاری ہے اوراب سعودی عرب کے حکمرانوں کا ٹولہ بھی اپنے اقتدار کے تحفظ کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ کی محتاجی پرمجبورہے۔

غرض یہ کہ ان کے شیطانی منصوبوں کی کوئی انتہا نہیں مگر اللہ تعالٰی کی شان بھی بڑی بے نیاز ہے۔ وہ ان ساری چالوں کا توڑ کرنا جانتی ہے۔ لہٰذا دیکھتی آنکھوں اورسنتے کانوں کےعلاوہ مکمل ہوش وحواس کے ساتھ پوری دنیا گواہ ہے کہ اللہ کی زمین کو اپنے باپ کی جاگیرمیں تبدیل کرنے کا عزم رکھنے والے اس وقت کس نزع کے عالم میں ہیں اوراپنے انجام سے کس قدرلرزیدہ ہیں۔ اس موقع پرمحب وطن حلقوں کی رائے کے مطابق ہماری فلاح اسی میں ہے کہ ہم گڑگڑا کراللہ کے حضوراپنےگناہوں کی معافی کی درخواست کریں- پورے عالم اسلام میں جمعہ اورپنج وقتہ نمازوں کی با جماعت ادائیگی کا اہتمام کریں اس پرپابندی کو یکسرمسترد کردیں- اوآئی سی ممالک کےسربراہوں کومجبورکریں کہ وہ اپنی اپنی کابینہ کے ارکان سمیت روضہ رسول پرحاضرہوکربا جماعت نمازوں کی ادائیگی کریں- اپنے ملکوں میں رائج تمام غیراسلامی اورغیرشرعی کاموں کو منسوخ کرنے کااعلان کریں، سودی نظام کا مکمل خاتمہ کریں- موجودہ لاک ڈاون کوختم کرنے کا اعلان کریں جومعیشت کے لئے نحوست بن رہا ہے-

ناصر محمود

پاکستانی صحافت کا بیک وقت اردو و انگریزی زبانوں میں مصروف عمل نام۔ 41 سالہ تجربہ میں تمام اصناف کا احاطہ شامل ہے۔ اردو ہفت روزہ "تکبیر" اور انگریزی روزنامہ "پاکستان آبزرور" کے بانیوں میں شمولیت کا اعزاز حاصل ہے۔ صنعت، سیاست، دفاع اور انویسٹی گیشن رپورٹنگ جیسے متعدد اہم سنگ میل عبور کئے۔

ناصر محمود