تازہ ترین

بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ

coronovirus and pakistani police reaction
  • ناصر محمود
  • مارچ 29, 2020
  • 10:31 شام

کرونا وائرس ہمارے خطے میں اس وقت جو موسم ہےاس میں کامیاب نہیں ہوسکتا- 30 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر اس کی بقا رہنا مشکل ھے- طبی ماہرین کے مطا بق جن ملکوں میں یہ وائرس اس وقت تباہ کاریاں پھیلا رہا ہے ان کا درجہ حرارت یکسرہم سے مختلف ہے۔

مثال کے طور پر اٹلی میں روم کا آجکل درجہ حرارت7 ڈگری سینٹی گریڈ ہےقم 12 اور مشہد کا 10 ڈگری سینٹی گریڈ تھا- لندن کا 5 فرانس 7 اسپین 9 ڈگری سینٹی گریڈ جرمنی 3 ڈگری سینٹی گریڈ نیویارک 6 ٹورنٹو مائنس دو ڈگری سینٹی گریڈ وغیرہ-

وائرس کا یہ پھیلاو صرف ان جگہوں پر زیادہ ہے جہاں کا درجہ حرارت 9 تا 10 ڈگری اوراس سے کم ھے- ہمارے ہاں اس دوران مختلف ملکوں سے جو لوگ یہاں پر آئے ہم ابتدا میں ان کی روک تھام نہیں کرسکے- چائنہ سے یہاں پر لوگ اۤئے ایران سے یہاں پر لوگ اۤئے ہم سے بہت سی کوتا ہیاں ھوئیں لیکن اس کے باوجود ہمارے یہاں وہ نقصانات نہیں ہوئے جو دیگرمما لک میں ھو رھے ہیں- اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم غفلت کے مرتکب تو ہوئے لیکن پروردگار کا کرنا ایسا ہوا کہ جیسے جیسے حالات آگے بڑھے ہمارا موسم ٹھیک ہوتا چلا گیا- اب ھمارے ملک کا درجہ حرارت 24 اور26 ڈگری سنٹی گریڈ سےاوپرجا رھا ھے اس میں وائرس کی اثراندازی کم ہوجاتی ہے- یہ وائرس اس طرح روزانہ نہیں رہتا اگر یہ کسی کو لگے گا یہ وائرس منتقل ہوگا تو بھی شاید اس وقت تک تباہی کا باعث نہیں بنے گا- دوسری بات یہ ھے کہ یہ وائرس زیادہ نقصان دہ ان افراد کے لیے ہے جو پرانےمریض ہیں- کوئی پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھا تو کوئی دل کا مریض تھا-

ان ماہرین کا کہنا ھے کہ خدارا یہ خوف و ہراس کی فضا ختم کریں ملک کے اندر جوڈپریشن کا سلسلہ پھیلایا جارہا ہے یہ نہایت خطرناک ہے ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے- ہمارے خطے کے مسائل ہمارے خطے کا ماحول اٹلی والا نہیں ہے یہاں پر درجہ حرارت اٹلی والا نہیں ہے- ووھان میں آج سے چالیس دن پہلے جب یہ تباہ کاری ہو رہی تھی وہاں کی سواموات روزانہ ہورہی تھی تو اس وقت وہاں کا درجہ حرارت 10ڈگری تھا ہم چائنیز قوم کو سلیوٹ کرتے ہیں جوانہوں نے بہت اچھے اقدامات کیے انہوں نے اپنے ملک کو آئسولیٹ کیا- انہوں نے اپنے متاثرہ شہرکودوسرے علاقوں سے سیل کر دیا- یہ سارے چین میں نہیں پھیلا لیکن جواب آپ کو نظر آتا ہے یہ معجزہ تو نہیں ہو گیا ہے جبکہ اب ایک موت بھی نہیں ہورہی- وہ اس لئے نہیں ہو رہی کہ اس وقت کا درجہ حرارت کرونا وائرس کے لیے مناسب ٹیمپریچر تھا وہ وائرس کی فیملیز کے لئے بہترین ٹمپریچرتھا- آج ووھان کا ٹیمپریچر26 ڈگری ہے- یہ 30 ڈگری تک جائگا تو وائرس خود بخود ختم ھوتا چلا جائگا-

لہٰذا ضروری ھے کہ ملک سے خوف وہراس کی فضا کوفوری طورپرختم کیا جائے- مارکیٹوں اور بازاروں کو بند کرنا ہمارے خطے کی ضرورت نہیں ہے- احتیاطی تدابیر اپنی جگہ ہمیں ایسی تدابیر کرنی چاہیئں لوگوں کو بتایا جائے کہ اپنے ہاتھوں کو اچھی طرح بیس سیکنڈ تک دھوئیں لوگ ماسک استعمال کریں- بالکل اس پرعمل ہونا چاہیے- مارکیٹوں میں رش نہیں ہونا چاہیے لیکن ان کو بند کر دینا کوئی عقلمندی کا تقاضا نہیں ہے- غیرضروری طور پرمارکیٹ مت جائیں اس وقت لوگ خود اتنے خوفزدہ ہیں کہ گھروں میں محصور ہو گئے ہیں- وہ شاپنگ میں دلچسپی نہیں رکھتے لیکن اگر آپ لوگوں کو خود کہہ دیں کہ آپ صرف ضروری کام سے مارکیٹ جائیں تو آپکی اسٹاک مارکیٹ کریش نہیں ہوگی یہ اربوں ڈالر کے نقصان کی طرف ملک بڑھ رہا ہے- ما ہرین کا کہنا ہے کہ ان کی بات کو خدارا چھوٹا نہ سمجھا جائے انہوں نے اس پر ریسرچ کی ہے اورانتہائی وثوق سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ آپ کا ملک نقصان کی طرف بڑھ رہا ہے آپ اپنی مارکیٹ کھلی رکھیں-

اس کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ دبئی سمیت یواےای ایک ایسا ملک ہے جہاں پر مصروف ترین ائرپورٹ ہے وہاں ایران کے لوگ جا رہے ہیں افغانستان کے لوگ جا رہے ہیں پاکستان سے بھی جا رہے ہیں جہاں پر پوری دنیا سے لوگ آرہے ہیں-  لیکن وہاں پریہ وبا نہیں ہے کیونکہ وہاں کا ٹمپریچر25 ہے اس لیے وہاں پر یہ وائرس نہی ہے- وہاں کی تمام مارکیٹیں کھلی ہیں- اس کا مطلب ہے کہ اگر ایک ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت بڑھے گا تو یہ وائرس پریشان ہوتا چلا جائے گا- جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھے گا یہ مسئلہ حل ہوتا جائے گا- خود بخود یہ وائرس اپنی موت مرجائے گا- ہم خدا سے دعا گو ہیں کہ خدا دیگرقوموں پر بھی رحم کرے- ان لوگوں پر بھی رحم کرے تمام انسانیت پر خود اپنا کرم کرے لیکن یہ ہمارے خطے کا مسئلہ نہیں ہے-

اس تمام پس منظرمیں ہماری مرکزی و صوبا ئی حکومتوں کی آنیاں و جانیاں عام لوگوں کے لئے سخت حیرت کا باعث ہیں- وہ یہ سمجھنے سے قاصرہیں کہ آخریہ حکمراں پورے ملک کو جیل خانےمیں تبدیل کرکے ملک و قوم کی کونسی خدمت انجام دے رہے ہیں- اس سلسلے میں باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس جاری ڈرامے کا سب سے بڑا سبب عالمی اداروں کی جانب سے اعلان کردہ وہ بھاری فنڈزہیں جن کے لئے یہ حکمراں تڑپ رہے ہیں- آئی ایم ایف ورلڈ بینک ایشین ڈیویلپمنٹ فنڈ اور یو ایس ایڈ وغیرہ نے جب سے ان امدادی رقوم کا اعلان کیا ہے ہمارے عہدیداروں نے اپنے عوام کا گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا ہے- اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لیڈران کرام اورسرکاری افسران کے بنگلے کوٹھیوں میں تو اگلے چھ ماہ کے راشن سمیت دیگرتمام لوازمات بھرے ہوئےہیں لیکن غریب عوام پچھلے دوہفتوں کے لاک ڈاون سے ہی بلبلا اٹھے ہیں- وہ فریاد کناں ہیں کہ ان کے لئے رزق حلال کمانے کے ذرائع کیوں بند کئے گئے ہیں- ان کے پاس دولت کے وہ وافرذخائرنھیں کہ جن کے بل پروہ گھربیٹھےعیاشیاں کر سکیں-

اس حقیقت میں توکوئی شبہ نھیں کہ چھوٹے بڑے سرکاری حکام روزمرہ کی رشوتوں اورکرپشن میں اتنی دولت اکٹھی کرلیتے ہیں کہ اسے خرچ کرنے کا انھیں موقع نھیں ملتا- اس کےلئےوہ ہرلمحہ چھٹیوں کی تلاش میں رہتے ہیں- چنانچہ کروناوائرس کی خبرملتےھی انھوں نے سب سے پہلا کلھاڑا تعلیمی اداروں پرچلایا اوردوہفتوں کی تعطیلات کا اعلان کر دیا- اس کے بعد دوہفتوں سے انھوں نے سارا نظام زندگی تلپٹ کرکے رکھ دیا- حتٰی کہ وزیروں اورمشیران کرام نے بھی مثبت ٹیسٹ رپورٹوں کی آڑمیں گھروں سےکام کرنے کا اعلان کردیا-

ساری دنیا کےدہریوں اورمشرکوں نےتوخوف خداسے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کردیا اوراٹلی کی سڑکوں اورمیدانوں پرلوگ اشکوں سے لبریزگڑگڑاکرسجدہ ریزہوگئے- مگرہمارے حکمرانوں نےمسجدوں پرتالےلگوادیئےاس سے زیادہ شرمناک بات اورکیا ہوسکتی ہے؟ ہمارے یہاں سرکاری گاڑیوں پرشراب کی ترسیل ہوتی پکڑی گئی- مساجد کےاماموں کوگرفتارکرکے تھانے لیجایا گیا ان پرمقدمات قائم کئے گئے- واضح رہے جن غیرملکی فنڈزکےحصول اوربدیسی حکمرانوں کی خوشنودی کیلیے ھماری حکومتیں اس حد تک گرچکی ہیں وہ اللہ واسطے ہماری مدد نھیں کررہےبلکہ انھوں نے بمع سود یہ تمام رقوم واپس لینی ہیں- اوریہ سارے بھاری قرضے ان عوام نے ہی ادا کرنےہیں جن کو حکمران طبقہ آج قیدوبند کے عذاب میں مبتلا کرکے بہادری کے دعوےکرنے میں مصروف ھے-

ناصر محمود

پاکستانی صحافت کا بیک وقت اردو و انگریزی زبانوں میں مصروف عمل نام۔ 41 سالہ تجربہ میں تمام اصناف کا احاطہ شامل ہے۔ اردو ہفت روزہ "تکبیر" اور انگریزی روزنامہ "پاکستان آبزرور" کے بانیوں میں شمولیت کا اعزاز حاصل ہے۔ صنعت، سیاست، دفاع اور انویسٹی گیشن رپورٹنگ جیسے متعدد اہم سنگ میل عبور کئے۔

ناصر محمود