تازہ ترین

اللہ کی طاقت، کرونا وائرس اور حفاظتی حصار

corona virus
  • محمد عدنان کیانی
  • مارچ 26, 2020
  • 1:48 شام

اس وقت ساری دنیا ایک بات تو سمجھ چکی ہے کہ زمین و آسمان پر حکومت کرنے والی ذات اللہ عزو جل کی ہے۔ دنیا بھر کے 70 لاکھ سے زائد سائنسدانوں کی ساری سائنس، ترقی و ٹیکنالوجی، طاقت اور ایجادات ایک چھوٹی سے وبا کے سامنے بے بس نظر آتی ہیں۔

جس  رب نے  ایک مچھر  کے ذریعے   نمرود جیسے  بادشاہ کو موت دی  تھی اس نے  ایک معمولی  وائرس  جو  صرف ہاتھ دھونے سے   ختم ہوجاتا  ہے کے ذریعے  بڑی  بڑی  سپر پاور    مملکتوں  ، بادشاہوں  اور سلطنتوں کو انکی  کھوکھلی  طاقتوں ،حیثیتوں اور اختیار کی قلعی  کھول  کر  رکھ دی ہے۔لبرلز  اور مادیت   پرستوں کی عقل  ابھی امریکہ  کی  فقیر طالبان سے شکست   پر ہی حیرت زدہ اور   ماتم  کدہ بنی ہوئی تھی  کہ رب کائنات  نے ایک  نہ نظر آ نے والے   معمولی  وائرس  سے  تمام   دنیا کی فانی   طاقتوں کو انکی اصلی  حیثیت و اختیار   کی حقیقت آشکار کردی ہے ۔ جب سپر پاور  امریکہ  کے  صدر ڈونلد ٹرمپ  دعاوں میں  لگ جائیں ،  اٹلی  کے  وزیر اعظم  روتے  ہوئے یہ  اقرار  کرلیں کہ  جو  اس وائرس     سے بچاو  کیلئے  کرسکتا  تھا  کرلیا اب  آسمان  کے رب سے  مدد  کے بغیر  بچنا مشکل  ہے، فرانس کے شہری  بڑی  تعداد  میں  جمع ہوکر  اللہ تعالی کے مبارک نام   کے ساتھ آہ و زاری کرکے  ہلاکت سے  بچنے کی   دعائیں  کریں   اور فرانسیسی حکومت چہرہ نہ ڈھانپنے  پر  150  یورو  کے جرمانے لگائے،چین میں مساجد غیر مسلموں سے  بھرنے لگیں اور عوام قرآن   کریم تقسیم  کرنے  لگیں  تو سمجھ میں آہی جانا چاہئے کہ  محمد ﷺ کا رب   ہی  حقیقی طاقتور ،باختیار و مالک  ہے  جس کے صرف کن سے کفر  بھی اسکے آگے  سجدہ ریز اور عشرت کدے ماتم  کدوں  میں بدل جاتے ہیں ۔جس کی قدرت  بڑے  طاقتور  ظالموں  کو بھی  زندگی کی  بھیک  مانگنے پر مجبور کردیتی ہے، جو  میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگانے والوں کی مرضی کا  ایسا قلع قمع کرتی ہے  کہ وہ خود اپنی اکیلی ذات  پر مرضی  چلانے کے لائق  نہیں  رہتے، جو  اسلام کو پتھر کے زمانے کا طعنے دینے والوں کو صبح شام ہاتھ دھونے ، نقاب  کرنے پر مجبور کردیتی ہے   اور وہ  بھی کسی  بڑے لشکر، جماعتوں یا طاقتوں سے  نہیں  بلکہ محض ایک معمولی  اور  چھوٹے سے  وائرس  کے  ذریعے۔سبحان اللہ۔واقعی  وہ ان اللہ علی کل شئی قدیر ہے۔قدرت، طاقت، اختیار  و حکومت واحد اسی اکیلی ذات   کی  ہے۔ اس نے  بتادیا ہے کہ اس کی ڈھیل  بھی اسی  کی مرضی ہے ورنہ وہ جب چاہے جسے  چاہے  الٹ پلٹ کر رکھدے۔جب چاہے باد شاہوں کو  فقیراور فقیروں کو شہنشاہ  بنادے۔ اسکی قدرت جوش میں آئے تو  گہرے  سمندروں  میں اپنوں کیلئے  راستے ، درندوں  کو خادم ، موزی جا نوروں کو محافظ اور   مظلوموں کو  آسمانی  لشکر عطا فرمادے۔اس سب  کے     بے شمار  نظاروں سے   ابتدائے دنیا سے آج تک کی تاریخ  بھری  پڑی ہے۔

اس وقت دنیا میں سائنسدانوں کی تعداد  70  لاکھ سے زائد ہے  مگر اب تک  4لاکھ سے زائد لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے  جبکہ18ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں اور  یہ سائنسدان  اس وائرس کی  کسی ویکسین  یا علاج یا تباہی سے بچاو سے عاجز ہیں ۔پوری دنیا کی اسٹاک مارکیٹیں بیٹھ گئی ہیں  اورنظامِ زندگی معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ البتہ  اسلامی  ممالک میں  یہ موذی  مرض  اس طرح  نہیں  پھیلا  جس طرح  باقی  دنیا میں تباہی  پھیلا رہا ہے۔اسلام   نے  اپنے پیروکاروں کے  نظریات  پر بڑی  محنت کی ہے کیونکہ  انسان  کا  نظریہ و عقیدہ  ہی  اسے  طاقت  ، ہمت و قوت یا  پھر خوف و بزدلی  اور توہمات کا شکار کرتا ہے۔یہ بات   تسلیم شدہ ہے  کہ خوف  انسان کو کھا جاتا ہے۔    سانپ سے نہیں البتہ سانپ کے خوف سے  زیادہ  لوگ مرتے ہیں ۔اسلام  نے    بیماری  و صحت، غم و خوشی، دکھ، درد  یا سکون ، عزت  و ذلت، مرتبہ و جاہ ، تخت یا دار سب کے متعلق  ایک  بنیادی عقیدہ  مسلمان   کے اندر رچایا بسایا ہے  کہ یہ سب اللہ  کے  قدرت و اختیار میں  ہے، اسی کے حکم سے  سب ہوتا  ہے اور اس کے غیر سے کچھ بھی  نہیں ہوتا۔ کوئی بیماری  اچھوت  نہیں  ہوتی  نہ کوئی  نفس و جان خود پر مرضی  رکھتا ہے۔ہوتا  وہی ہے جو رب چاہتا ہے۔

اسلام  نے   ہر معاملے  میں احتیاط   و تدبیر  کا حکم دیا ہے۔ پھر چاہے وہ معاملہ صحت کا ہو یا معاشرت کا یا معاملات کا۔ تاہم  تدبیر کے بعد تقدیر و توکل  کا درس  بھی دیا ہے۔انسان کو سکھایا ہے کہ تدبیر کرو مگر نگاہ رب کائنات پر رکھو کہ تقدیر کا مالک وہی ہے۔اس تدبیر سے  نتیجہ اچھا یا برا رب  تعالی  کے اختیار میں  ہے اسلئے ایک مسلمان  ساری محنت  و تدبیر  کے دوران اور بعد بھی نتائج کیلئے  نگاہ  و دعا  رب  پر رکھتا ہے۔ ایک  مسلمان کا کوئی  فعل  چاہئے احتیاط  ہو یا تدبیر رب  تعالی کی  ناراضگی  پر مشتمل  نہیں ہونا چاہئے ورنہ  رب کی زمین  پر رب کی  مرضی  کے بغیر یا اس کے خلاف بغاوت کرنے والوں کا حشر  تاریخ میں   بھرا  پڑا ہے اور اس کورونا وائرس  کی افتاد میں ہم آنکھوں سے دیکھ  بھی رہے ہیں ۔

تبلیغی جماعت  کے  ایک بزرگ  کہتے ہیں  کہ  حالات  کا مقابلہ حالات سے  کرنا  غیر اللہ کا طریقہ  ہے  جبکہ حالات کا مقابلہ اعمال(صالحہ) سے  کرنا انبیاٗ علیہم السلام  کا طریقہ ہے۔ اسلئے دنیا  میں سکون  و عافیت  چاہئے تو بھی رب  اور اسکے محبوب کے طریقے  اور اعمال صالحہ کو اپنانا ہوگا۔اسلام  عین فطرت دین ہے۔نظافت و طہارت اسکا حکم  ہے۔آ ج سے    1400 سال قبل ہی  اللہ  تعالی  کے محبوب  پیغمبر  اور محسن انسانیت  محمد عربی ﷺ  نے   انسان کو ایسے رہنے  کے سلیقے سکھائے   ہیں  کہ جو آج کافر  بھی  کرنے اور کرانے  پر مجبور  ہیں ۔مثلااسلام نے تو بہت پہلے  مسلمانوں  کو ہاتھ دھونے کا حکم دیا مگراس کا ہمیشہ مذاق اُڑایا گیا، روزانہ  5 وقت وضو میں سب سے پہلے ، استنجے سے قبل اور بعد،کھانے سے  قبل و بعد ،صبح  جاگو تو کسی چیز کو چھونے سے پہلے ہاتھ دھولو۔طہارت کو ایمان کا ایک بڑا اہم حصہ قرار دیا جبکہ ان ترقیافتہ ممالک میں رہنے والے مادر پدر آزاد    غیر مسلموں   کو  تو غلاظت دھونے  کیلئے صرف ٹشو کا استعمال آتا تھا جو بدبومیں لتھڑے جسموں  پر پرفیوم چڑھک  لینے کو اپنی  کامیابی و ترقی  سمجھتے  تھے مگر آج دن رات  پانی کے استعمال اور ہاتھ  دھونے  پر  لگے ہوئے  ہیں۔ایڈز جیسی غلیظ بیماری کو  انہوں  نے ہی  خود دنیا بھر میں عام  کیا۔ الحمدللہ  مسلمان  تو  ایک  بہترین  اور کامیاب  زندگی و آخرت کا ضامن   طریقہ حیات اور طہارت و نظافت کے  رہنما اصول رکھتے  ہیں ۔    یہ الگ بات  ہے کہ ہم مسلمان  اپنا سبق بھولے  ہوئے  ہیں  اور مقتدا ہوتے  ہوئے  غیروں کی  غلامی  میں لگے ہوئے ہیں ۔ افسوس  کے ساتھ  اس وقت  بھی  اسلامی  ممالک  میں  کچھ ایسے اقدام اٹھائے  گئے  جو خود کسی وبال سے  کم  نہیں ۔ جس رب سے  شفا  کے  خواستگار  ہیں  اسی رب کے  گھروں  پر تالے ڈالنے  کو حفاظت و تدبیر سمجھ رہے ہیں ۔سب سے زیادہ دگرگوں  صورتحال خلیجی ممالک میں  ہے  جہاں   نماز جمعہ  تک پر پابندی لگادی  گئی ہے۔ باجماعت  نماز  کو بزوربازو   بند کردیا گیا ہے۔اللہ کے  ماننے والوں کی حکومت ہو اور وہاں  نماز جمعہ  و نماز  باجماعت پر پابندی ہو  یہ کرونا سے  کہیں زیادہ بڑا  اور مہلک عذاب  ہے۔ ارے یہی تو انسانیت کی حفاظت و بقاء کے قلعے  ہیں یہی  ویران  و سنسان  ہو گئے تو پھرتو قیامت  ہی آئے گی۔

پاکستان  میں  ابھی الحمدللہ  ایسی صورتحال  نہیں لیکن  سندھ اور پنجاب میں لاک ڈاون کردیا  گیا  ہے  جبکہ باقی ملک میں  بھی جزوی لاک ڈاون جیسی  صورتحال  ہے۔تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی  نااہلی  سے   کئی زائرین ایران سے  وطن عزیز میں داخل ہوگئے  جن میں سے 70 فیصد سے زائد  کورونا  کا شکار  ہیں ۔عجیب بات  یہ کہ   یہ نوازش صرف انہیں  زائرین  کے حصے میں آئی جبکہ  چین میں پھنسے  طلبہ یا دوسرے ممالک میں  بسنے والے  پاکستانی ایسی کسی نرمی  کے حقدار نہیں  ٹہرے۔ائرپورٹ  بند ہیں  مگر ایران سے زائر ین کے آنے کا سلسلہ جاری ہے  وہیں پاکستان میں کرونا کیسز کی تعداد بڑھتی   جارہی ہے۔ایران  نے نہ انکا کوئی علاج کیا اور نہ  انہیں  اسکرینگ   کے بعد یہاں   بھیجا جو     عوام میں  گھل مل کر  اور کبھی قرنطینہ سے  زبردستی  باہر نکل کر  اچھے خاصے ہایئڈروجن  بم  کا کردار ادا کررہے ہیں ۔سندھ  ہو یا وفاق اس سنگین صورتحال کو قابو میں کرنے کی ضرورت ہے ورنہ 22 کروڑ عوام  کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں ۔ دوسری  جانب  کراچی  کے  بعض علاقوں خصوصا ڈیفنس میں  مساجد  پر تالے ڈال دیئے گئے ہیں   جو انتہائی خطرناک  اور غلط اقدام ہے۔بیماری اور شفا اللہ کے ہاتھ میں  ہیں  امریکی صدر ٹرمپ تو اپنے گرجا گھروں میں  ‘‘پرے(دعا) ڈے’’ منائیں  اور مسلمان  مساجد  پر تالے ڈال دیں ،انتہائی  بدعقیدگی اور اللہ  پر بھروسے  کی کمی کی دلیل ہے۔احتیاط کرنی چاہئے، سنتیں گھروں میں پڑھ لیں ، وضو گھر سے کر کے آئیں ، بڑے اجتماعات  نہ ہوں  مگر اسلام کا سب سے   اہم رکن  نماز  باجماعت اور مساجد کو  بند کردینا کسی  بڑے عذاب کا پیش  خیمہ  ثابت ہوسکتی  ہے اسلئے  فی الفور اس کے خلاف ایکشن لینا چاہئے اور تمام مساجد کو کھلوانا چاہئے۔

اسلامی ممالک  کو چاہئے کہ  وہ مغرب کی اندھی تقلیدسے باز رہیں۔ دشمنوں کی سازش سے بچیں۔ ہم ایک بیماری اور وباء کے خوف سےایسے اقدامات کیوں کررہے ہیں جن کی وجہ سے رب کائنات  ناراض  ہوجائے ۔مغرب والوں نےہاتھ ملانے کے  بجائے کہنیاں ملانا شروع کیں تو ہم نے بھی فوراً اُن کی اقتداء شروع کردی، اگر ہاتھ نہیں ملانا تو نہ ملاؤ مگر غیروں کی تقلیدمیں کہنیاں ملانا کونسی ترقی اور کونسی عقلمندی ہے۔

مسلمانوں کی حفاظت کیلئے اللہ تعالیٰ نے  ’’معوذتین‘‘  اور  ‘‘ آیۃ الکرسی ’’ کا عظیم  تحفہ بخشا ہے ۔ 2 ایسی سورتیں جن کا کوئی مثل ہی نہیں اور جن کے حفاظتی حصار کا دنیا میں کوئی توڑ ہی نہیں۔ معوذتین اور آیۃ الکرسی میں بے انتہا طاقت موجود ہے۔حضور اقدس ﷺ نے ایک صحابی کو صبح و شام سورہ اخلاص اور معوذتین یعنی  سورہ فلق و سورہ ناس  پابندی سے پڑھنے کی تلقین فرمائی اور ارشاد فرمایا :‘‘ تکفیک من کل شیء’’ ( ابوداؤد ) ‘‘یہ ہر چیز کا مقابلہ کرنے کے  لئے تمہیں کافی ہیں’’۔یعنی ہر شیطانی اور شرّی حملے کو روکنے کیلئےکافی ہیں۔ مسلمانوں کو صبح و شام ان سورتوں کا کم از کم تین باراہتمام کرنا چاہیے اور اگر ہر نماز کے بعد 3,3  بار پڑھیں تو حفاظت و برکت کا خزانہ پالینگے۔ اسکے علاوہ فرائض کی پابندی،حرام  سے  دوری،  حفاظت کی مسنون  دعائیں،  درود شریف  خصوصا درود تنجینا   کی کثرت، ہر وقت  باوضو رہنا، مسواک کی عادت اور صدقات  واجبہ و نافلہ کا اہتمام  ہر طرح کی جسمانی و روحانی بیماریوں  اور غموں سے  نجات کیلئے اکسیر  ہے۔‘‘طاعون’’ بھی اسی طرح کی ایک بیماری اور وباء ہے بلکہ ’’کورونا وائرس‘‘ سے زیادہ خطرناک اور مہلک ہے۔کئی احادیث مبارکہ میں اس کا تذکرہ ملتا ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے رسول کریمﷺ سے ’’طاعون‘‘ کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے  فرمایا کہ ‘‘وہ ایک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اُس پر بھیج دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے مؤمنوں کے حق میں رحمت بنایا ہے’’۔ (فتح الباری) ۔ایک اور حدیث میں حضور اقدسﷺ کا ارشاد مبارک  ہے۔‘‘الطاعون شھادۃ لکل مسلم (بخاری)

طاعون ہر مسلمان کے لے شہادت ہے’’۔یعنی جو مسلمان ایمان کی حالت میں طاعون سے مرجائے  وہ شہید ہوگا’’۔

طاعون   کے بارے  میں  وارد احادیث شریفہ  سے پتہ چلتا  ہے کہ کوئی مسلمان خود کو امتحان میں نہ ڈالے اور خود اس علاقہ میں نہ جائےجہاں پر ’’وباء‘‘ پھیلی ہوئی ہو وجہ یہ ہے کہ مسلمان کا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کسی سے کسی کو کوئی بیماری نہیں لگتی۔ اب اگر کوئی وباء زدہ علاقے میں جائے گا اور اس کو اس کی تقدیر کی وجہ سے بیماری لگ گئی تو اس کا یقین بگڑ سکتا ہے،وہ اس وہم میں جاسکتا ہے کہ یہ بیماری مجھے فلاں سے لگی ہے اور یہ   وہم مومن کے لیے موت سے زیادہ برا ہے۔دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس علاقہ میں وباء  پھیل چکی ہووہاں سے کوئی مسلمان بھاگ کر دوسرے علاقے میں نہ جائے۔اگر بیماری اور موت قسمت میں لکھی ہے تو بھاگنے سے نہیں ٹلے گی اور اگر نہ لکھی  ہو تو وباء زدہ علاقے میں رہنے سے بھی نہیں آئے  تاہم موت اور بیماری کے خوف  سے  اَشرف المخلوقات انسان کااس قدر اَفراتفری، پریشانی اور غم میں پڑجانااس کی شان اور اللہ    کریم کی نیابت جو اسے سونپی  گئی ہے اس کے خلاف ہے۔اسلام  نے ہمیں ایسے  حفاظت  کے قلعے ا ور  مضبوط حفاظتی حصار عطا کئے  ہیں کہ بس انہیں اپنانے اور ان میں  لگنے کی  ضرورت ہے ۔اسی توکل  اور قلعوں کے ذریعے  حضرت ابراہیم علیہم السلام    پہاڑوں جیسے  آگ  کے الاو سے زند ہ سلامت  نکل آئے تھے، حضرت یونس ؑ 40  روز  تک مچھلی  کے پیٹ میں رہ کر زندہ  باہر نکل آئے تھے،حضرت  موسی ؑ فرعون  سے  اور سمندر کے بیچوں  بیچ پوری قوم سمیت  بچ  نکلے تھے،حضرت عیسیؑ سولی  سے زندی سلامت آسمانوں پر اٹھالئے  گئے تھے اور حضرت  محمد ﷺ کفار مکہ و منافقین ، یہود و نصاری  کی سازشوں سے  محفوظ رہے۔   ہاں  اگر موت کا آنا مقدر ہوجائے  تو حضرت  حسین  ؓ اپنے ساتھیوں سمیت خود چل  کر کربلا جاتے ہیں اور شہادت کا تاج سر پر سجا لیتے  ہیں  ، حضرت خالد بن ولید ؓ جسم کے ہر حصے  پر تلواروں ، نیزوں  کے زخم  کھا کر بھی سیف اللہ رہتے ہیں جو  کوئی نہیں توڑ پاتا مگر جب وقت آتا ہے تو  بستر پر جان اللہ کے سپرد کردیتے ہیں۔ انہی حفاظت  کے قلعوں  میں سے ایک یہ دعا بھی ہے  جو حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ہاں سےپیارے آقا ﷺ تک چلی آتی ہے۔حضرت ابراہیم ؑاس دعاء سے اپنے صاحبزادوں  حضرت  اسماعیل واسحاق علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں دیا کرتے تھےجبکہ حضوراقدسﷺ اپنے لاڈلے نواسوں حضرت سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کو حفاظتی حصار میں لیتے تھے۔یہ دعاء بخاری شریف میں موجود ہے جو اس طرح  ہے۔‘‘اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَ ھَامَّۃٍ  وَ مِنْ کُلِّ  عَیْنٍ لَامَّۃْ۔ اس دعاء میں اللہ تعالی کے مکمل وطاقتور کلمات کے ذریعہ ہر شیطان ،ہر موذی جاندار اور ہر ’’نظر بد‘‘ سے پناہ مانگی گئی ہے۔

پریشان  ہونے کے بجائے احتیاطی  تدابیر  اختیار کریں ، اللہ کی قدرت و طاقت  پر  غور و فکر  بھی کریں  ،مساجد کو خوب آباد کریں، ذکر اللہ اور درود شریف کی مجالس سجائیں اور  یہ ایمان  رکھیں  کہ  فاعل حقیقی صرف اللہ  ہے، جو  ہوتا  ہے رب  کرتاہے  ،اسکے غیر سے  کچھ  نہیں  ہوتا۔

محمد عدنان کیانی

محمد عدنان کیانی بین الاقوامی سطح پر جانی جانے والی دینی شخصیات کے انٹرویوز کے سلسلے میں اپنا مقام بنا چکے ہیں۔ وہ اردو و انگریزی کالم نگاری اور سب ایڈیٹنگ سمیت سماجی خدمات میں بھی پیش پیش ہیں۔ مذہبی امور پر مضبوط گرفت رکھتے ہیں۔

محمد عدنان کیانی