تازہ ترین

کتاب ترقی کا زینہ

Stack Of Books
  • محمد قیصر چوہان
  • جون 24, 2019
  • 1:54 شام

حضرت محمد ﷺ پر نازل ہونے والی پہلی وحی اس حقیقت پر مبنی تھی کہ علم حاصل کرنا انسان کا ایک بنیادی فریضہ ہے۔ یوں اسلام نے انسانی تاریخ میں پہلی بار عالمگیر تعلیم کا نظریہ پیش کیا۔

قرآن حکیم میں علم اور تحصیل کی اہمیت کو متعدد آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ مدد سے حق اور باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ علم جنت کے راستے کو روشن کرتا ہے۔ جب ہمارا کوئی دوست نہیں ہوتا تو وہ ہمارا ساتھ دیتا ہے وہ مصیبت کے وقت ہماری ڈھارس بندھاتا ہے۔ دشمنوں کے مقابلے میں ہتھیار کا کام دیتا ہے اور دوستوں کے مابین زینت ہے۔ اس کی بدولت اللہ تعالیٰ قوموں کو بلند مقام عطا فرماتے ہیں اور ان کو نیک مشاغل کی طرف رہبری کا منصب سپرد کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے نقش قدم کی پیروی اور ان کے اعمال کی نقل کی جاتی ہے ان کی رائے کو تسلیم کیا جاتا ہے اور ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اسلام نے تلقین کی کہ تحصیل علم ایک مقدس فریضہ ہے۔

اسی تعلیم کا اثر تھا کہ اسلامی دنیا میں علمی تحقیق و تجسس کا ذوق و شوق سرعت کے ساتھ پھیلتا گیا۔ کتاب و حکمت کی یہی تعلیم ہے کہ جس کی بدولت انسانوں نے طبعی کائنات کی قوتوں کو مسخر کیا اور انہیں اپنے تصرف میں لایا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ امت مسلمہ کے ہر فرد کیلئے کتاب و حکمت دونوں کی تعلیم حاصل کرنا لازمی ہے مطالعہ انسان کو حصول علم کی جانب مائل کرتا ہے، یہ انسان کو اپنی ذات سے روشناس کراتا ہے، معاشرے اور اس میں بسنے والوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے، یہ انسان کو نئی فکر عطا کرتا ہے، انسان کی سوچ کو وسیع کرنے اور اس میں کشادگی کا باعث ہوتا ہے، یہ انسان میں قوت مشاہدہ پیدا کرتا ہے، مطالعہ سے انسان میں اچھائی اور برائی کی پہچان ہوتی ہے، مطالعہ سے ہی انسان نے کائنات میں پوشیدہ رازوں کو دریافت کیا، دنیا میں جتنے بھی عالم، فاضل، فلسفی، بلند پایا محقق، عظیم سائنسداں، مصنف، موجد اور جتنے بھی ارباب سیف و قلم گزرے ہیں مطالعہ ان کی زندگی کا ایک اہم اور لازمی حصہ تھا۔ مطالعہ وقت گزارنے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ مطالعہ کی عادت سے انسان دنیاکے حالات سے با خبر رہتا ہے۔ مطالعہ کے بے شمار ذرائع ہیں ان میں اخبارات، رسائل و جرائد، کتب، برقی ذرائع جن میں ریڈیو، ٹیلی ویژن، وی سی آر، انٹرنیٹ، ڈسک، سی ڈیز وغیرہ۔

ان تمام میں کتب کا مطالعہ سب سے اہم اور دیر پا ہوتا ہے کیونکہ کتاب ہر دم تازہ رہتی ہے اس کی حیثیت مستقل اور مسلسل ہوتی ہے۔ انسان کا جب جی چاہے اسے پڑھے جب جی چاہے اسے بند کر کے رکھ دے، خرید کر پڑھے یا کسی لائبریری سے مفت لا کر مطالعہ کرے یا کسی اپنے دوست سے مستعار لے کر فیض حاصل کرلے۔ یہ اپنے پڑھنے والے کو ہر حال میں خوش رکھتی ہے۔ یہ جتنی پرانی ہوتی جاتی ہے نادر و نایاب کہلانے لگتی ہے۔ کتاب ایک مسلمہ حقیقت ہے اسے ہردور، ہر زمانے میں فضیلت حاصل رہی ہے۔ انسانی تہذیب کے دور میں کتاب کو بلند مقام حاصل رہا ہے۔ بلاخوف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ تہذیب انسانی کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا جو کتاب سے تہی دامن رہا ہو اور فکر کتاب سے آزاد ہو جائے۔ دراصل کتابیں بلند خیالات اورسنہری جذبات کی دستاویزی یادگاریں ہوتی ہیں۔ کتابیں بحرحیات کی سیپیاں ہیں جن میں پر اسرار موتی بند ہیں۔ اگر ہم ان کی تعریف میں ادبی اور شعری انداز بیان اختیار کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ کتابیں معلومات کے ثمر دار درختوں کے باغ ہیں، گزرے ہوئے بزرگوں کے دھڑکتے دل ہیں، حسن و جمال کے آئینے ہیں اور وقت کی گزری ہوئی بہاروں کے عکس ہیں۔ کتابیں لافانی بلبلیں ہیں جو زندگی کے پھولوں پر سرمدی نغمے گاتی ہیں۔

کتاب کے بارے میں میرا انداز فکر یہ ہے کہ جس گھر میں کتابیں نہ ہوں وہ ایک ایسے جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو، جس درسگاہ میں کتابیں نہ ہوں وہ ایسی درسگاہ کی مانند ہے جس میں طلبہ نہ ہوں۔ جس شہر میں کتب خانے نہ ہوں وہ ایک شہر ویراں ہے اور جس کتب خانے میں لوگوں کو کتابوں سے عشق و محبت نہ ہو وہ کتب خانہ علم کی بس ایک نمائش گاہ ہے۔ یہ نمائش گاہ لگی بھی رہ سکتی ہے اور یہ نمائش زمانے کے ہاتھوں تباہ بھی ہو سکتی ہے۔ درحقیقت، کتاب ایک ایسی روشنی ہے کہ جس نے گزرے زمانے کی شمع کو کسی لمحہ مدھم ہونے نہیں دیا۔ زمانے کی ترقی اسی مینارہ نور کی مرہون منت ہے۔ یہ ایک ایسا انمٹ لازوال سرمایہ ہے کہ جس نے انسانی ترقی کے تمام ادوار یعنی ماضی، حال اور مستقبل کو مربوط رکھنے کے ساتھ ساتھ انہیں ایک دوسرے سے متعارف کرانے کا خوش گوار فریضہ بھی انجام دیا ہے۔ کتاب کا حصول اس قدر آسان ہے کہ کوئی چیز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہ ہمیں عجائبات کی سیر کراتی ہے۔ اس کے ذریعے سے سلجھے ہوئے ذہن کے مصنفین کے خیالات سے آگاہی ہوتی ہے۔ کتاب ہمیں اسلاف اور ان لوگوں کے حالات بڑی آسانی سے مہیا کر دیتی ہے جن تک ہم پہنچ نہیں سکتے۔ کتاب جیسا ساتھ کسی کو مل سکتا ہے کہ جب آپ چاہیں کچھ وقت آپ کے ساتھ گزارنے پر تیار ہو جائے اور جب آپ پسند کریں تو سائے کی طرح آپ کے ساتھ لگی رہے، بلکہ آپ کی خواہش ہو تو آپ کے جسم و جان کا جزو بن جائے۔

جب تک آپ چاہیں خاموش رہے اور جب آپ کا جی اس سے بولنے کو چاہے تو چہکنے لگے۔ آپ کسی کام میں مصروف ہوں وہ خلل انداز نہیں ہوتی اور آپ تنہائی محسوس کریں تو آپ اسے شفیق ساتھی محسوس کریں۔ کتاب ایک ایسا قابل اعتماد دوست ہے جو کبھی بے وفائی نہیں کرتا اور نہ کبھی آپ کا ساتھ دینے سے جی چراتا ہے۔ اچھی کتاب بے مثال دوست ہے جو ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنے کی صلاح دیتا ہے۔ کتاب دراصل صدائے ماضی ہے جس کی بازگشت نے قرنہا قرن کے فاصلوں کو شکست دے کر انسان کو کامیابی اور ترقی سے ہمکنار کیا۔ کتاب وہ روشنی ہے جس نے ماضی کی شمع کو کبھی مدہم نہ ہونے دیا اور انسان کی ترقی و ظفر مندی دراصل اسی شمع فروزان کی مرہون منت ہے۔ یہ فاصلوں کی بازگشت ہے اورخاموشیوں کی آوازیں ہیں۔ یہ ہمیں پرانے زمانے کی روحانی اور ذہنی کاوشوں کا وارت بناتی ہیں۔ یہ علم و آگہی کا وہ خزانہ ہے جس کی دولت کبھی ختم نہیں ہوتی اور جو نسل در نسل وراثتاً سونپا جا سکتا ہے۔ کتاب ایک زندہ اور متحرک شے ہے جس نے تاریخ، اقتصادیات، ثقافت، تہذیب و تمدن، غرض کہ ہر مکتبہ فکر پر گہرا اثر ڈالا ہے۔

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان