تازہ ترین
نئی حکومت کو درپیش بڑے چیلنجزکشمیراورفلسطین میں قتل عام جاریبھارتی دہشت گردی نے کشمیر کوموت کی وادی بنا دیاووٹ کا درست استعمال ہی قوم کی تقدیر بد لے گادہشت گرد متحرکنئے سال کا سورج طلوع ہوگیااسٹیبلشمنٹ کے سیاسی اسٹیج پر جمہوری کٹھ پتلی تماشاحکومت آئی ایل او کنونشن سی 176 کوتسلیم کرےجمہوریت کے اسٹیج پر” کٹھ پتلی تماشہ“ جاریدہشت گردی کا عالمی چمپئنالیکشن اور جمہوریت کے نام پر تماشا شروعافریقہ، ایشیا میں صحت بخش خوراک عوامی دسترس سے باہردُکھی انسانیت کا مسیحا : چوہدری بلال اکبر خانوحشی اسرائیل نے غزہ کو فلسطینی باشندوں کے قبرستان میں تبدیل کر دیا”اسٹیبلشمنٹ “ کے سیاسی اسٹیج پر ” نواز شریف “ کی واپسیراکھ سے خوشیاں پھوٹیںفلسطین لہو لہو ۔ ”انسانی حقوق“ کے چمپئن کہاں ہیں؟کول مائنز میں انسپکشن کا نظام بہتر بنا کر ہی حادثات میں کمی لائی جا سکتی ہےخوراک سے اسلحہ تک کی اسمگلنگ قومی خزانے کو چاٹ رہی ہےپاک فوج پاکستان میں زرعی انقلاب لانے کیلئے تیار

ابھی پردہ اٹھنا باقی ہے!

India v Pakistan - ICC Cricket World Cup 2019
  • قلم سے قلب تک
  • جون 21, 2019
  • 2:08 شام

کرکٹ کے پیشہ ور کھلاڑی ہونے کے ناطے میدان سے لے کر نجی زندگی کے امور تک ہر عام آدمی کی کرکٹرز پر نظر ہوتی ہے۔

کرکٹ پہلے مخصوص ممالک کھیلا کرتے تھے، تکلیف کا باعث ہوسکتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ پہلے کرکٹ ان ہی ممالک میں کھیلی جاتی تھی جہاں جہاں تاج برطانیہ کا راج تھا۔ پھر بدلتے ہوئے حالات نے اسے تقویت بخشی اور یہ مخصوص سرحدوں سے پھلانگتا ہوا آج دنیا کے کم وپیش تمام ممالک میں دیکھا اور کسی حد تک کھیلا جاتا ہے۔ آج کرکٹ دنیا میں سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے کھیلوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر پہنچ چکا ہے۔ جبکہ پہلے نمبر پر فٹبال ہے۔ اس مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ کرکٹ کا ایشیائی ممالک میں بڑھتا ہوا رجحان ہے اور ایشیاء سات براعظموں میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا براعظم ہے۔ یہاں دنیا کی کل آبادی کا 60 فیصد حصہ آباد ہے اور اس ساٹھ فیصد میں سے تقریباً چالیس فیصد کرکٹ کے متوالے ہیں۔ یعنی کرکٹ کے فروغ میں سب سے بڑا حصہ ایشیاء کا ہے او رایشاء پر مکمل حکمرانی کا خواب ہمارا پڑوسی ملک نا جانے کب سے آنکھوں میں سجائے ہوئے ہے۔

بھارت کے بعد پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش اور اب افغانستان بھی بین الاقوامی مقابلوں میں باقاعدہ شرکت کر رہے ہیں۔ یعنی بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے دس باضابطہ ممبران میں (جوکہ ابھی عالمی مقابلوں میں حصہ لے رہے ہیں) سے پانچ کا تعلق ایشیاء سے ہے۔ ایشیائی باشندے آج دنیائے کرکٹ کی ہر ٹیم میں تقریباً موجود ہیں اور اس کھیل کو دنیا میں ناصرف پھیلانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ مختلف ممالک میں سکونت اختیار کرنے کے بعد ان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ سچ پوچھئے تو قوم نے جذباتی نہ ہونے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور تھا۔ قوم کو بہت اچھی طرح پتا ہے کہ ہم میں تاریخ بدلنے کا حوصلہ ہے اور نہ ہی کوئی خاص عزم، یہ اجتماعی سوچ اور فکر کی بات ہے اس کا کسی کی انفرادی تاریخ بدلنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

جنوبی ایشیاء کرکٹ کھیلنے، دیکھنے اور سمجھنے والوں کا خطہ ہے۔ یہاں کرکٹ ساحل سمندر پر بھی دیکھی جاسکتی ہے، لق و دق صحراؤں میں بھی کرکٹ کا بول بالا ہے اور سنگلاخ پہاڑوں میں کرکٹ کھیلنے والوں نے دنیا کو اپنی بلے بازی اور گیند بازی سے پہلے ہی مرعوب کر رکھا ہے، جن میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے شاہد آفریدی سر فہرست ہیں اور اس فہرست کی طوالت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

آج ترقی کی بلندیوں کو چھوتی اس دنیا نے جہاں ہر پرانی چیز کو نئی چیز سے بدل دیا ہے وہیں کرکٹ کے کھیل میں بھی برق رفتاری آگئی ہے۔ آج پانچ روزہ ٹیسٹ میچ بھی تین تین دن میں فیصلے کیساتھ ختم ہوجاتے ہیں۔ کرکٹ کی جدت اور اسے کم وقت میں ختم کرنے کی جستجو نے کھیل کو 6 روزہ میچوں سے ٹی 10 پر لاکر کھڑا کردیا ہے۔ یعنی کرکٹ کا مزاج یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ ملکوں میں کرکٹ بورڈ اب باقاعدہ ایک منظم ادارے بن چکے ہیں اور ان اداروں میں کھلاڑیوں کو خام مال سے تیار شدہ مال میں تبدیل کرنے کی تمام سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ جس طرح سے انجینئر اور ڈاکٹر بنائے جاتے ہیں دنیا میں آج اتنی ہی محنت ایک کرکٹ کے کھلاڑی کیساتھ کی جارہی ہے۔

جہاں کرکٹ کھیلنے کی صلاحتیں ایک کھلاڑی اپنے ساتھ لاتا ہے وہیں دیگر دوسرے معاملات سے نمٹنے کی صلاحتیں اسمیں ڈالنے کا کام کرکٹ کا ادارہ کرتا ہے۔ کرکٹ آج ایک باقاعدہ ادارے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ اس ادارے کے لوگ (جن میں کھلاڑیوں سے لیکر دیگر تمام منسلک افراد شامل ہیں) ملک و قوم کا وقار ہوتے ہیں ان تمام لوگوں کی کارگردگی ٹیم کی کارگردگی سے ممثلت رکھتی ہے۔ کرکٹ کے کھلاڑی اب پیشہ ور کھلاڑی بن چکے ہیں۔ کھیل کے میدان سے لیکر ان کی نجی زندگی کے امور تک عام آدمی کی نظر ہوتی ہے۔ کھلاڑی یہ کہنے کا جواز نہیں رکھتے کہ ہماری بھی کوئی نجی زندگی ہے کیونکہ یہ قوم کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں۔ بالکل اس سپاہی کی طرح جسے کوئی جانتا بھی نہیں لیکن وہ اپنا فرض ہماری حفاظت کیلئے سرحد پر دشمن کے توپوں کے سامنے کھڑا رہتا ہے۔

بطور پاکستانی ہمارے اہم ترین فرائض میں اول نمبر پر ہے کہ اس بات کا ہر ممکن خیال رکھیں کہ ہماری کسی بھی حرکت سے ہمارے ملک کا نام بدنام نہ ہو۔ یہ فرض ان لوگوں پر زیادہ لاگو ہوتا ہے جو عوامی شخصیات ہوتے ہیں جن میں فنکار، اداکار، کھلاڑی، سیاستدان، کاروباری افراد، وغیرہ شامل ہیں۔ بدلتے ہوئے دنیا کہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارا رویہ کم ازکم ملک سے باہر بہت محتاط ہونا چاہئے کیونکہ محسوس یہ کیا جا رہا ہے کہ ساری دنیا ہم پاکستانیوں کو بدنام کرنے کے درپے ہے۔ دنیا میں کچھ بھی ہوتا رہے کوئی خطرے کی یا پریشانی کی بات نہیں بنتی ہاں اگر پاکستان میں کچھ ہوجائے تو بات کا کیسا بتنگڑ بنتا ہے اس سے ہم سب خوب واقف ہیں۔

آج کل کرکٹ ہی کرکٹ ہورہی ہے اور پاکستان کی ٹیم پاکستانیوں کو مایوس کرتی جا رہی ہے۔ ایک طرف ہمیں لگا کہ پاکستانی قوم کرکٹ کو سمجھ چکی ہے اب پاکستان کی ہار پر جذباتی نہیں ہوگی۔ لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب کرکٹ ٹیم کی کارگردگی ایسی ہو جیسے کسی گلی یا محلے کی ٹیم پاکستان نے عالمی مقابلوں میں شرکت کیلئے بھیج دی گئی ہو، کپتان کے فیصلوں کی سمجھ نہیں آرہی، میدان میں ٹیم کی باہمی ہم آہنگی دکھائی نہیں دے رہی، کرکٹ کے شوقین اور کرکٹ کو سمجھنے والے یہ ساری باتیں بہت اچھی طرح سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ آج کل تو سماجی میڈیا نے ایسے امور کو منظرعام پر لانے کا ذمہ احسن طریقے سے اٹھایا ہوا ہے۔

ایک طرف تو پاکستان کی ٹیم نے انگلینڈ جیسی مضبوط ٹیم کو شکست سے دے کر پاکستانی قوم کے حوصلے بلند کئے لیکن اگلے ہی میچ میں جو کہ آسٹریلیا سے کھیلا گیا پاکستانی ٹیم انتہائی سہل پسندی کی وجہ سے جیتا ہوا میچ ہار گئی۔ پاکستانی قوم کو قوی امکان تھا کہ ٹیم تاریخ رقم کرنے کیلئے تیار ہے، نئی ٹیم ہے نیا جذبہ ہے۔ عالمی مقابلوں میں بھارت سے کبھی نہ جیتنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا۔ کسی حد تک قدرت نے ساتھ دیا اور کپتان نے ٹاس جیت لیا، شاید نیند میں ہونے کے باعث، جس کا ثبوت ساری دنیا نے دیکھا، جو کرنا تھا اس کا الٹ ہوگیا اور بھارت کو پہلے بلے بازی کی دعوت کیا دی سمجھئے اپنے گیند بازوں کی درگت بنوانے کا پروانا دے دیا۔ بڑے بڑے کہتے رہے کہ ٹاس جیت کر بیٹنگ کرنی چاہئے اور بھارتی کپتان نے بھی یہی بات کی کہ ہم ٹاس جیت جاتے تو بلے بازی ہی کرتے۔

اگر پاکستان میچ کو میچ کی طرح کھیل کر ہار جاتا تو قوم کو اتنا دکھ نہیں ہوتا جتنا کہ اس بری طرح سے ہارنے کا ہوا ہے اس پر سونے پہ سوہاگا وہ تمام حرکات جو کم از کم ایک پیشہ ور ٹیم کے کھلاڑیوں کو زیب نہیں دیتیں منظر عام پر آگئیں۔ اس عالمی کپ میں شعیب ملک سے پاکستانی عوام کو بڑی توقعات تھیں اور یقیناً کپتان اور انتظامیہ کو بھی رہی ہوں گی لیکن ابھی تک شعیب ملک کسی طرح کا کردار نبھانے میں بالکل ناکام دکھائی دئیے ہیں اور مذکورہ ویڈیو کا کلیدی کردار بھی وہ اور ان کی بھارتی بیگم ہیں۔ ان سارے غیر معمولی محرکات کے پیچھے کچھ نا کچھ تو پوشیدہ ہے، اب تو کرکٹ سفارتکاری بھی نہیں کہہ سکتے۔ بہت سارے ایسے لوگ ٹیم کے ساتھ ہیں جو ان رازوں پر سے وقت آنے پر پردہ اٹھائیں گے۔ بس ملک کی عزت اور وقار کی پاسداری کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

ابھی عالمی مقابلوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے اور ابھی پاکستان کے آگے بڑھنے کہ امکانات بھی باقی ہیں۔ یعنی ابھی وقت ہے کہ اپنے تمام اقابل اعتراض اقدامات پر جیت کر پردہ ڈال لیا جائے کیونکہ ہم بہت جلدی سب کچھ بھول جانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، پاکستان کی کرکٹ ٹیم سے خصوصی درخواست ہے کہ اس صلاحیت سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور اپنے اور اپنے ہری وردی کی لاج رکھنے کیلئے اپنی بھرپور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں اگر آپ سیمی فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے تو پھر وہ ممکن ہے کہ تاریخ رقم کرنے کا موقع پھر مل جائے۔

شیخ خالد زاہد

شیخ خالد زاہد مختلف اخبارات اور ویب ساٹس پر کالم اور بلاگز لکھ رہے ہیں۔ "قلم سے قلب تک" ان کا مستقل عنوان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان فیڈرل یونین آف کالمنسٹ (پی ایف یو سی) کے رکن بھی ہیں۔ ہماری ویب رائٹرز کلب میں بطور اعزازی نائب جنرل سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہےہیں۔

شیخ خالد زاہد