تازہ ترین

وفاقی بجٹ، آئی ایم ایف دوست یا عوام دشمن؟

Pakistan budget 2019
  • محمد قیصر چوہان
  • جون 15, 2019
  • 6:39 شام

حکومت عوام کو ریلیف دینے کی اپنی ذمہ داری تو پوری کر نہیں رہی ہے الٹا اشیاء ضروریہ پر بھاری ٹیکس وصول کرکے بھی شرمندہ نہیں ہے۔

پی ٹی آئی حکومت نے 70 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا، جس میں 35.6 کھرب روپے خسارہ ظاہر کیا گیا ہے۔ بجٹ میں غریب عوام پر 11 کھرب روپے سے زائد کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ چینی، خشک دودھ، کوکنگ آئل، دالیں، مشروبات، سیگریٹ، سی این جی، ایل این جی، گاڑیوں اورسیمنٹ سمیت ضروریات زندگی کی بیشتر اشیاء مہنگی ہو جائیں گی۔ درآمدی پولٹری مصنوعات، بکرے، بیف اور مچھلی کے گوشت، خوردنی تیل اور گھی پر 17 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔ چینی پر سیلز ٹیکس8 سے بڑھا کر 17 فیصد کردیا گیا، جس قیمت میں ساڑھے 3 روپے فی کلواضافہ ہوجائے گا۔ سونے، چاندی اور ہیرے کے زیورات پر بھی سیلز ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اپوزیشن نے بجٹ کو آئی ایم ایف دوست اور عوام دشمن قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔

پاکستان کے غریب عوام کو کرپشن، مہنگائی اور آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات دلاکر ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے دعویدار عمران خان نے بجٹ میں غریب عوام کو ریلیف دینے کے بجائے مزید ٹیکس لگا کر مہنگائی کی چکی میں پسنے والوں کی پریشانی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ جن بے خبر لوگوں نے بجٹ میں اس طرح کے ٹیکس عائد کرنے کے مشورہ دیا ہے۔ ان بے خبر لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ملک میں صرف چند فیصد لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں اور بقیہ لوگ مزے کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک فقیر بھی اگر کوئی چیز خریدتا ہے تو وہ اس پر ٹیکس کی ادائیگی کرتا ہے۔ چاہے جھونپڑی والا ہو یا پھر دو مرلے کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہنے والا محنت کش۔ سب بجلی گیس سمیت ہر چیز پر نہ صرف پورا ٹیکس ادا کرتے ہیں بلکہ اکثر زائد بلنگ کا شکار بھی رہتے ہیں۔

ایک عام آدمی کی تنخواہ سے فوری طور پر ٹیکس منہا کرلیا جاتا ہے جبکہ موبائل فون کے بیلینس، فون کال، دواﺅں، اسپتال کے بل، کس چیز پر ایک عام آدمی ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ اگر کوئی یہ ٹیکس ادا نہیں کرتا تو وہ طبقہ اشرافیہ ہے۔ عمران خان پارلیمنٹ کے اراکین کا معیار زندگی دیکھ لیں اور خود انہوں نے کتنا انکم ٹیکس ادا کیا ہے، یہ دیکھ لیں۔ خود عمران خان، آصف زرداری اور نواز شریف کی جانب سے کتنا انکم ٹیکس ادا کیا گیا ہے، اگر یہ اعداد و شمار دیکھ لئے جائیں تو ایک عام شخص حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔

جب ایک شخص انکم ٹیکس کی سلیب میں آتا ہی نہیں ہے تو وہ کس طرح سے انکم ٹیکس ادا کرسکتا ہے۔ تاہم دن بھر وہ ہر شے کے استعمال یا خریداری پر ٹیکس دیتا ہے، وہ حکومت کے نزدیک کسی شمار قطار ہی میں نہیں ہے۔ ہر روز ایک نیا بزرجمہر سامنے آتا ہے اور اپنی دانشوری بگھارتا ہے کہ اتنے لوگ عمرے پر گئے مگر صرف اتنوں نے ٹیکس ادا کیا۔ کوئی یہ اعداد و شمار نہیں جاری کرتا کہ افواج کو عام اشیاء کی خریداری پر جو ایکسائیز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس معاف ہے، اس کا قومی خزانے پر کتنا اثر پڑتا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کو کیفے ٹیریا میں کتنے کی سبسڈی دی گئی، ارکان پارلیمنٹ پر ملک میں اور ملک سے باہر علاج کرانے کیلئے کتنے ارب روپے خرچ ہوئے، انہیں کتنی تنخواہ اور مراعات دی جاتی ہیں جو ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔

اسی طرح کا معاملہ عدلیہ کے ساتھ ہے۔ اگر ان تینوں بڑے اداروں پر سے ٹیکس معافی ختم کردی جائے تو ملک کو سیکڑوں ارب روپے کی بچت تو ایسے ہی ہوسکتی ہے۔ حکومت کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ مناسب طریقے سے مناسب ٹیکس کی وصولی کرے اور اسے ایک عام فرد کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔ یہاں پر تو صورتحال یہ ہے کہ جو محروم طبقہ ہے، اسی سے ٹیکس کی وصولی پر زور ہے اور جو طبقہ اشرافیہ ہے، اس کیلئے ہر سطح پر استثناء کی کوئی نہ کوئی صورت موجود ہے۔ اشیائے خور و نوش سمیت بجلی اور گیس کے بلوں پر ٹیکس کی وصولی کو سفاکانہ اقدام ہی کہا جاسکتا ہے۔ ان تمام سہولیات کی ہر شخص کو فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ حکومت اپنی یہ ذمہ داری تو پوری کر نہیں رہی ہے الٹا ان اشیاء پر بھاری ٹیکس وصول کررہی ہے اور شرمندہ بھی نہیں ہے۔

عمران خان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے معاشیات کا کوئی ایک اشاریہ ایسا نہیں ہے جو مثبت ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ عمران خان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک کسی جنگ میں شامل ہوگیا ہو یا کسی قدرتی آفت نے تباہی مچادی ہو، جس کی وجہ سے ملک کی اقتصادیات کی نیّا ڈوب رہی ہے۔ جو بھی خرابی آئی ہے وہ عمران خان کی اپنی ٹیم کی لائی ہوئی ہے۔ عمران خان کی ٹیم میں کوئی ماہر معیشت ہی نہیں تھا جو پہلے دن سے معاشی پالیسی تشکیل دیتا۔ لے دے کر ایک اسد عمر تھے جن کا چہرہ کبھی بھی بطور ماہر معیشت سامنے نہیں آیا۔ وہ ایک بڑی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ضرور تھے مگر مذکورہ کمپنی میں بھی ان کی کارکردگی بہتر نہیں رہی اور اطلاعات کے مطابق انہیں جبری طور پر مستعفی ہونا پڑا۔

اس کے بعد ماہرین معیشت کے نام پر آئی ایم ایف کے حاضر سروس ملازمین پاکستان پر مسلط کردیے گئے۔ پہلے آئی ایم ایف کے دئیے گئے املا پر اسد عمر اینڈ کمپنی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری کر رہی تھی جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت گرداب میں پھنسی کشتی کی طرح بری طرح ہچکولے کھانے لگی۔ بعد میں بینک دولت پاکستان کو آئی ایم ایف کے براہ راست حوالے کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب روپے کی بے قدری کے آگے کوئی روک ٹوک ہی نہیں ہے اور روز بروز روپیہ ڈالر کے مقابلے میں گرنے کا نیا ریکارڈ قائم کرتا ہے۔ بینک دولت پاکستان کے موجودہ گورنر رضا باقر جب مصر میں آئی ایم ایف کے نمائندے تھے، وہاں پر بھی ان کی یہی کارگزاری تھی جس نے مصر کو معاشی طور پر تباہ کرکے رکھ دیا۔ پاکستان کی معاشی لگام آئی ایم ایف کو دینے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ پاکستانی معیشت مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہے۔

عمران خان اور ان کے مشیر خزانہ عوام سے بار بار قربانی کی اپیل کر رہے ہیں مگر ایوان وزیر اعظم اور ایوان صدر کے بجٹ میں کتنی کٹوتی کی گئی ہے، اس پر مکمل خاموشی ہے۔ اسی طرح عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم بار بار ایک ہی قوالی گارہی ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے مگر اربوں روپے کی جائیداد رکھنے والے عمران خان خود کتنا انکم ٹیکس دیتے ہیں، یہاں پر تحریک انصاف کی پوری ٹیم پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے۔ ایک غریب آدمی تو ہر لمحے ہی ٹیکس دیتا رہتا ہے۔ بجلی ، گیس ، اشیائے خور و نوش ، ادویہ ، اسپتال کے بل، ریلوے کے کرایے ، تعلیمی اداروں کی فیس ہر چیز میں ٹیکس دیتا ہے۔ وزیر اعظم تو مفت کی بجلی استعمال کرتے ہیں۔ وزیر اعظم ہاؤس سے بنی گالہ جانے کیلئے عوام کے ٹیکسوں کی آمدنی سے ہیلی کاپٹر میں سفر کرتے ہیں اور اربوں روپے کی جائیداد رکھتے ہوئے، شاہانہ طرز زندگی گزارتے ہوئے چند لاکھ روپے کا بھی انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے ہیں۔

عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم قوم کو کیوں آگاہ نہیں کرتی کہ محض روپے کی بے قدری کے ایک فیصلے ہی نے ملک کی معیشت کو تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ بہتر ہوگا کہ عمران خان گزشتہ حکومتوں کا رونا رونے کے بجائے اپنی ایک برس کی کارکردگی کی بات کریں۔ گزشتہ ادوار میں اگر پاکستان کو لوٹا گیا ہے تو اس لوٹی گئی رقم کو واپس لانے کیلئے عمران خان اور ان کی ٹیم نے اب تک کون سا تیر مارا ہے۔ عمران خان کو یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ ان کی حکومت پاکستان کی تاریخ کی ناکام ترین حکومت ہے۔

عمران خان کو علم ہونا چاہئے کہ صرف ٹیکس کی وصولی ہی حکومت کا کام نہیں ہے، بلکہ اس ٹیکس کا درست استعمال بھی حکومت کے اولین فرائض میں شامل ہے۔ عمران خان قوم کو بتائیں گے کہ ٹیکس کی اس رقم سے وہ کس طرح 80 افراد کو لے کر عمرہ پر جاسکتے ہیں ایسے عمل پر وہ پچھلے حکمرانوں کو مغل بادشاہ کہتے رہے ہیں۔ اب یہ بادشاہت کی کون سی قسم ہے؟ ابھی تک عمران خان ملک سے کرپشن کے خاتمے کیلئے زبانی دعوؤں کے سوا کچھ بھی نہیں کرسکے۔ ان کے مشیر وزیر صرف ایک ہی خوشخبری دیتے ہیں اور وہ ہے مہنگائی میں اضافہ۔

عمران خان سب سے پہلے تو اس امر کی وضاحت کریں کہ ان کے برسراقتدار آنے کے بعد ڈالر کے مقابلے میں روپے کو پچاس فیصد بے قدر کیوں کیا گیا اور اس کے ملک کو کیا مثبت نتائج حاصل ہوئے۔ اگر اس سے ملک کو سراسر نقصان ہی ہے تو حکومت دوبارہ سے روپے کی قدر کو ڈالر کے مقابلے میں کیوں بہتر نہیں کرتی۔ اگر ڈالر کے مقابلے میں روپے کو کم از کم سور روپے کے تبادلے پر لے آیا جائے تو افراط زر کو قابو میں کیا جاسکتا ہے۔

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان