تازہ ترین
یورو و پانڈا بانڈز جاری کرنے کی حکومتی کوشش کی ناکامی کا خدشہکچے کے ڈاکوؤں پر پہلی بار ڈرون سےحملے، 9 ڈاکو ہلاکبانی پی ٹی آئی کے وکیل انتظار پنجوتھہ اٹک سے بازیابایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔قومی اسمبلی نے صبح سویرے 26ویں آئینی ترمیم کا بل منظور کرلیااشرافیہ، ثقافتی آمرانہ پاپولزم اور جمہوریت کے لیے خطراتوسکونسن کی ریلی کے بعد کملا ہیرس کو اینٹی کرائسٹ کہا جا رہا ہے۔عالمی جغرافیائی سیاست کے تناظر میں نیا اقتصادی مکالمہالیکشن ایکٹ میں ترمیم 12 جولائی کے فیصلے کو کالعدم نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ کے 8 ججوں کی توثیق

گجرانوالہ میں پنجاب کالج کے طلباء کی گرفتاریاں: وجوہات، واقعات اور اثرات

  • kamranshehxad
  • اکتوبر 15, 2024
  • 6:38 شام

گجرانوالہ میں حالیہ دنوں میں پنجاب کالج کے طلباء کے خلاف پولیس کی کارروائی نے ملک بھر میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ پولیس کی جانب سے متعدد طلباء کو گرفتار کیا گیا ہے، جو کہ مبینہ طور پر احتجاجی سرگرمیوں اور مطالبات کے حق میں آواز بلند کرنے پر کی گئی کارروائی کا […]

گجرانوالہ میں حالیہ دنوں میں پنجاب کالج کے طلباء کے خلاف پولیس کی کارروائی نے ملک بھر میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ پولیس کی جانب سے متعدد طلباء کو گرفتار کیا گیا ہے، جو کہ مبینہ طور پر احتجاجی سرگرمیوں اور مطالبات کے حق میں آواز بلند کرنے پر کی گئی کارروائی کا حصہ ہیں۔ اس واقعے نے نہ صرف طلباء بلکہ شہریوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
واقعے کا پس منظر :
پنجاب کالج گجرانوالہ کے طلباء نے حالیہ دنوں میں مختلف مسائل کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا، جن میں تعلیمی اداروں میں سہولیات کی کمی، امتحانات میں بے ضابطگیاں، اور فیسوں میں اضافے جیسے معاملات شامل تھے۔ طلباء کا کہنا تھا کہ وہ اپنے جائز حقوق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں، اور ان کا مقصد تعلیمی نظام میں بہتری لانا ہے۔
احتجاج میں شدت اُس وقت آئی جب انتظامیہ اور طلباء کے درمیان مذاکرات ناکام ہو گئے۔ انتظامیہ کی جانب سے طلباء کے مطالبات کو سنجیدگی سے نہ لینے کے باعث طلباء نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا، جس کے بعد پولیس کی مداخلت شروع ہوئی۔
گرفتاریاں: وجوہات اور پولیس کا مؤقف :
پولیس کی جانب سے طلباء کی گرفتاریاں اُس وقت عمل میں آئیں جب احتجاجی طلباء نے سڑکیں بند کرنے کی کوشش کی اور مبینہ طور پر ادارے کے باہر ہنگامہ آرائی کی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ طلباء کو قانون کی خلاف ورزی اور امن عامہ کو نقصان پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
1. امن و امان کا مسئلہ: پولیس کے مطابق، طلباء کے احتجاج نے عوامی امن کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ سڑکوں کی بندش اور ہنگامہ آرائی کی اطلاعات پر پولیس کو مداخلت کرنا پڑی تاکہ صورتحال قابو میں لائی جا سکے۔
2. انتظامیہ کی شکایات: پنجاب کالج کی انتظامیہ کی جانب سے بھی شکایات موصول ہوئی تھیں کہ طلباء احتجاج کے دوران غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہو رہے ہیں، جس کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے طلباء کو گرفتار کیا۔
3. قانون کی بالادستی کا دعویٰ: پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اور احتجاج کا حق صرف اُس وقت تک ہوتا ہے جب تک کہ وہ پُرامن رہے۔
طلباء کا مؤقف :
گرفتار ہونے والے طلباء اور ان کے ساتھیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کا احتجاج پُرامن تھا اور ان کا مقصد صرف اپنے مطالبات کو حکومت اور انتظامیہ کے سامنے لانا تھا۔ طلباء کا کہنا ہے کہ:
1. تعلیمی مسائل کا حل: ان کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ کالج کی فیسوں میں اضافے کو روکا جائے اور تعلیمی سہولیات میں بہتری لائی جائے۔
2. پُرامن احتجاج کا حق: طلباء کا کہنا ہے کہ احتجاج کرنا ان کا آئینی حق ہے اور پولیس کی کارروائی غیر قانونی اور غیر منصفانہ ہے۔
3. حکومت کی بے حسی: طلباء کا دعویٰ ہے کہ حکومت اور تعلیمی ادارے ان کے مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے اور ان کے مستقبل کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔
گرفتاریاں: انسانی حقوق کا پہلو :
انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں نے اس واقعے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طلباء کے احتجاج کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کرنا غیر آئینی اور غیر جمہوری عمل ہے۔ انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ:
1. پُرامن احتجاج کا حق: کسی بھی جمہوری معاشرے میں طلباء کو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا حق حاصل ہے، اور ریاست کو ان کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔
2. پولیس کی کارروائی: پولیس کی جانب سے طلباء کے خلاف طاقت کا استعمال اور ان کی گرفتاریاں غیر ضروری ہیں۔ اس کے بجائے حکومت کو طلباء کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے تھی۔
عوامی ردعمل اور سوشل میڈیا :
اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا ہے۔ طلباء اور ان کے حامیوں نے ہیش ٹیگز کے ذریعے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا اور پولیس کی کارروائی کو غیر منصفانہ قرار دیا۔ بہت سے صارفین کا کہنا ہے کہ طلباء کا صرف اتنا قصور تھا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے تھے۔
اس کے ممکنہ اثرات :
گجرانوالہ میں طلباء کی گرفتاریوں کا واقعہ پاکستان کے تعلیمی نظام اور سیاسی ماحول پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
1. طلباء کی مزید بغاوت: اگر حکومت اور تعلیمی ادارے طلباء کے مطالبات کو نظر انداز کرتے ہیں، تو اس سے طلباء میں مزید بغاوت اور احتجاجی تحریکیں جنم لے سکتی ہیں۔
2. تعلیمی اداروں میں کشیدگی: اس واقعے کے بعد تعلیمی اداروں میں انتظامیہ اور طلباء کے درمیان کشیدگی بڑھ سکتی ہے، جس سے تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہو سکتی ہیں۔
3. سیاسی ردعمل: مختلف سیاسی جماعتیں بھی اس واقعے پر اپنے ردعمل کا اظہار کر رہی ہیں، اور ممکنہ طور پر اس مسئلے کو سیاسی طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
نتیجہ :
گجرانوالہ میں پنجاب کالج کے طلباء کی گرفتاریاں ایک سنگین مسئلہ ہیں جو تعلیمی اداروں، حکومت، اور طلباء کے درمیان اعتماد کی کمی کو ظاہر کرتی ہیں۔ حکومت کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے طلباء کے مسائل کو حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ مستقبل میں اس قسم کی صورتحال سے بچا جا سکے۔ طلباء کو بھی اپنے احتجاج کو پُرامن رکھنے اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

کامران شہزاد

کامران شہزاد امریکہ کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے بیچلر ہیں۔ میں سیاسی تزویراتی جیو پولیٹیکل تبدیلیوں میں دلچسپی رکھتا ہوں۔اور ساتھ میں ہفتہ، وار کالم لکھتا ہوں ٹائم اف انڈیا میں۔ اس کالم نگاری اور گلوبل پولیٹیکل میں کام پچھلے سات سال سے اس شعبے سے وابستہ ہوں۔

کامران شہزاد